1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وسیم اکرم کا نیلم، سعید انور کا شمال اور ثقافتی تباہ کاریاں

12 اگست 2021

پچھلے کالم میں ہم سیف الملوک سے لاپتہ ہونے والی پریوں کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ آخری تجزیے میں پتہ یہ چلا کہ ماحولیاتی بد اخلاقیوں سے تنگ آکر نانگا پربت سے کوچ کرکے وہ شمال کی طرف نکل گئی تھیں۔

https://p.dw.com/p/3ysdo
DW Urdu Blogger Farnood Alam
تصویر: Privat

اب مہذب انسان پورے غل غپاڑے کے ساتھ شمال پہنچ رہا ہے تو پریوں نے پھر سے پر تولنا شروع کردیے ہیں۔ اگلے ٹھکانے کے لیے وہ سوچ رہی ہیں کہ جگہ جیسی بھی ہو مگر انسان نامی حیوان سے دور بہت دور ہو۔ 

جس دن یہ کالم شائع ہوا اتفاق سے اسی دن سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم کی ویڈیو آگئی۔ عنوان تھا کہ وسیم اکرم نے کراچی والوں سے معافی مانگ لی ہے۔

تجسس کے مارے خبر کھولی تو وسیم اکرم طنزیہ لہجے کے ساتھ دریائے نیلم کے کنارے کھڑے نظر آئے۔ کیمرے کی آنکھ اُنہوں نے دور کچرے کے ایک ڈھیر پر جمائی ہوئی تھی۔ کہہ رہے تھے، 'کچھ دن پہلے ساحل سمندر سے کراچی والوں کو مخاطب کرکے میں نے کہا تھا کہ یار تم لوگ گند بہت پھیلاتے ہو۔ نیلم پہنچ کر پتہ چلا کہ کراچی والے اس معاملے میں یگانہ و یکتا نہیں، کشمیری بھی تول میں پورے نکلے ہیں‘۔

کشمیری قوم حالانکہ پڑھائی اور صفائی میں بری نہیں ہے، مگر لگتا ہے نیکوکاروں کی صحبت انہیں مارگئی ہے۔ اسی لیے شاید ایک ستم ظریف نے تبصرہ کیا کہ یہ ایل او سی کے پار والے کشمیریوں کا بھی یہی حال ہے یا یہ ذوق ہمارے والے کشمیریوں نے ہی پایا ہے۔

اس سے مجھے امارات میں ایک بنگالی سے ہونے والا مکالمہ یاد آگیا۔ عجمان کے ایک مارٹ پر پاکستان کی ایک جعلی سی کریم کا اشتہار دیکھا تو 'حریان دریان‘  رہ گیا۔ مارٹ کے بنگالی منیجر سے میں نے کہا کہ یہی کچھ بیچنا تھا تو پاکستان سے علیحدہ ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ تُرنت بولا، ''بیس پچیس سال گزارے ہیں آپ کے ساتھ۔ عادتیں اتنی جلدی کہاں بدلتی ہیں۔‘‘

وسیم اکرم کے طعنوں کوسنوں سے اگر کشمیریوں کی دل آزاری ہوئی ہو تو وہ بجاطور پر وسیم اکرم سے معافی کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ مگر ایسا تب ہی ممکن ہے جب خدا کا کوئی نیک بندہ وسیم اکرم کو جھیل سیف الملوک لے کر جائے گا، یا پھر انہیں کالام کے بازار سے گزار کر پائین کے جنگلوں میں لے کر جائے گا۔

یونہی ایک کے بعد ایک مقام سے وہ گزرتے گئے تو وسیم اکرم کے پاس مانگنے کو صرف معافیاں ہی رہ جائیں گی۔ پورے پاکستان سے معافیاں مانگ لیں گے، بیچارہ شمال رہ جائے گا۔ یہ اعزاز حاصل کرنے کے لیے شمال کو کوئلے کے پانی سے منہ ہاتھ دھونے پڑیں گے۔   

بنجر زمینوں میں نصیحتیں کاشت کرنے سے پہلے وسیم اکرم کو یہ بات دھیان میں رکھنا چاہیے کہ ان سے پہلے بھی کئی خوش فہم اس دشت سے ہو گزرے ہیں۔ یہاں مارٹن کوبلر نامی ایک جرمن سفیر بھی آئے تھے جو رکھ رکھاؤ سے حضرتِ خضر لگتے تھے۔ وہ آئے تو سفارت کاری کے لیے تھے مگر غریب نے ساری مدت ہمیں یہ ایک بات سمجھاتے ہوئے گزاردی کہ میاں زندگی سے پیار ہے تو اپنے لچھن بدلو۔ پانی ضائع مت کرو، ماحول کا خیال رکھو، جنگلی حیات کا دھیان رکھو اور گندگی پھیلانے سے گریز کرو۔

اس سے پہلے کہ  گھریلو تشدد کو اپنی ثقافت قرار دینے والے ماحولیاتی آلودگی کے دفاع میں کھڑے ہوتے، مارٹن اپنے ملک چلے گئے۔ وہ گئے تو پیچھے سے جی جلانے کو برطانوی ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر آگئے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں میں گھومتے ہیں اور گند بلا کی تصویریں لگا کر دل آزاری کرتے ہیں۔ ایک دن تو وہ حد سے گزرگئے۔

وزیر اعظم ہاوس کے عقب کی ایک تصویر لے کر پورے زمانے کو دکھا دی۔ اس تصویر میں کوڑا کرکٹ کا ایک ڈھیر لگا ہوا ہے اور جنگلی سُوروں کی بھاری کابینہ پیٹ پوجا کر رہی ہے۔ ایک دن ایک اور تصویر لگا کر کہنے لگے صفائی نصف ایمان ہے۔ شکر بھیجنا چاہیے کہ ٹو نائنٹی فائیو سی کی رسی میں جکڑ کے کسی نے یہ نہیں پوچھ لیا کہ  'مسیحی تم کون ہوتے ہو ہمیں اسلام کا درس دینے والے؟‘  صفائی نصف ایمان ہے تو یہ عالم ہے۔ سوچو اگر صفائی پورا ایمان ہوتی تب کیا نظارے ہوتے۔ 

گفتگو کی یہ اِننگز وسیم اکرم کے اوور کی وجہ سے لمبی ہوگئی، ورنہ میں مختصر الفاظ میں یہ سوال کرنا چاہتا تھا کہ گندگی کے یہ سارے ڈھیر تو چلیں کسی طور صاف ہوجائیں گے، مگر دل دماغ میں رکھا ہوا گند کیسے صاف ہوپائے گا؟

ہم صبح شام اول آخر درود شریف کے ساتھ مشرقی تہذیب کی تسبیح پڑھنے والے لوگ ہیں۔ ہم چوبیس گھنٹے چوکنا رہتے ہیں کہ 'یہود ونصار‘ ہماری ثقافت کو تباہ وبرباد نہ کردے۔ تاثر یہ دیتے ہیں کہ لے دے کے ہمارے پاس ایک ثقافت ہی ہے، یہ نہ رہی تو ہم دونوں جہانوں میں رسوا ہوجائیں گے۔ مگر شمال پہنچتے ہی سب سے پہلے ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ثقافت بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور احترام کا بھی کوئی تقاضا ہوتا ہے۔

شمالیوں کا غیر امتیازی ماحول ہمیں اس خوش فہمی میں مبتلا کر دیتا ہے کہ ہم اعزازی شہرزادہ گلفام لگے ہوئے ہیں۔ جس خاتون کو ہم مسلسل نظریں گاڑ کے دیکھیں گے وہ دوپٹہ جھاڑ کے ہمارے ساتھ بادلوں کے سفر پر نکل جائے گی۔ اگر کوئی ہاتھ دے دے تو ہمیں گلے پڑجانا چاہیے اور دروازہ کھلا دیکھیں تو حواس باختہ بکری کی طرح گھس جانا چاہیے۔ اگر کوئی ثقافتی لباس پہن کر گزر رہا ہے تو اسے تماشا بنا دینا چاہیے۔ ناک میں دم کردینا چاہیے اور سیل فون نکال کر کھچا کھچ تصویریں کھینچ لینا چاہییں۔

کون ہے جو چترال گیا ہو اور کالاشیوں کے ہاں نہ گیا ہو۔ ان کی خواتین کو کسی کا سامنا کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔ ان کے مرد بے دھڑک کسی کو کسی بھی سوال کا جواب دے دیا کرتے تھے۔ آنے والے مہمان کو دیکھ کر مسکراتے تھے۔ شہروں کا احوال لیتے تھے اور اپنا احوال دیتے تھے۔ ان کے ثقافتی پہناووں سے متاثر ہوکر کوئی تصویر کھینچنا چاہتا تو یہ بخوشی کھنچوالیتے تھے۔

گُھل ملنے پر چائے کی دعوت دیتے تھے اور گھر لے جاکر خاطر تواضع کرتے تھے۔ مگر رفتہ رفتہ ان خواتین کو پتہ چلا کہ  ان کے ساتھ تصویریں کھنچوانے والے یہ مہذب لوگ سوشل میڈیا پر ان کی تصویروں پر رسوائے زمانہ کیپشن لگاکر تماشے لگاتے ہیں۔ آوازیں دے دے کر لوگوں کو تماشے میں حصہ ڈالنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ لوگ تو ہاتھ ملانے کا مطلب رسائی اور مسکراہٹ کا مطلب آمادگی سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ تو خاطر داری تک کے مفہوم کو جنسی حوالوں سے دیکھتے ہیں۔ کیا یہ اس قابل ہیں کہ انہیں اپنے گھروں میں گھسنے بھی دیا جائے؟

بمبوریت کے راستے آج بھی کھلے ہیں، مگر کیلاشیوں کے چہروں پر سے خوش آمدیدی تاثرات ختم ہوچکے ہیں۔ اب وہاں دروازے بند ملتے ہیں۔ مہذب قوم کے شرفا گزرتے ہیں تو خواتین راستہ بدل لیتی ہیں۔ بہت دیر گپ شپ کرنے کے بعد بھی کوئی چائے کا دعوت  نہیں دیتا۔ آپ ویسے ہی سیل فون استعمال کر رہے ہوں تو وہ منہ پھیر لیتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے یہ بن پوچھے بہت ہوشیاری کے ساتھ ویڈیو یا تصویر بنا رہے ہوں گے۔ کالاشی اب جو کر رہے ہیں، یہ سب ان کی اپنی ثقافت کے خلاف ہے۔ وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے، مگر دل پر پتھر رکھ کر انہیں ایسا کرنا پڑ رہا ہے۔

کچھ برس پہلے کالاشیوں نے اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل میں میڈیا سے گفتگو کی۔ التجائی لہجے میں پوری قوم سے انہوں نے کہا تھا کہ سیاحت آپ کا حق ہے، مگر بال بچوں سیمت آنکھوں میں گھسنا سراسر بدتمیزی ہے۔ آنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھا کریں کہ ہمارے بھی کچھ اعتقادات اور رسم و روایات ہیں۔ تفریح کیا کریں مگر ہر چیز کو تماشا مت بنایا کریں۔ یہ التجا انہوں نے اُس قوم سے کی جس کا ماننا ہے کہ اگر عورتوں کو کسی دقت کا سامنا ہے تو وہ آرام سے گھر میں بیٹھ جائیں۔ باہر نکلنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھا کریں کہ مرد 'روبوٹ‘ نہیں ہوتے۔

اب تو خیر سے رہی سہی کسر پوری کرنے کے لیے ہم نے شمالیوں کے پاس سعید انور صاحب کو سرکاری پروٹوکول میں بھیجنا شروع کر دیا ہے۔ جن سے ہمیں صفائی ستھرائی، شائستگی، ماحول دوستی، رواداری اور رکھ رکھاؤ سیکھنا چاہیے، انہیں ہم زندگی گزارنے کا بہتر طریقہ سمجھانے جا رہے ہیں۔ کالاشی ہم سے زندگی کی سہولتیں مانگ رہے ہیں، ہم پورے بندوبست کے ساتھ تبلیغی قافلے بھیج رہے ہیں۔

ثقافت کے باب میں ہماری ذہنی سطح کیا ہے، اسے سمجھنا ہو تو بمبوریت کے پہاڑوں پر چڑھ کر دائیں بائیں دیکھیں۔ پہاڑ کی ایک جانب افغانستان کا علاقہ نورستان ہے جہاں یہی کالاشی آباد ہیں تو دوسری جانب پاکستان کا علاقہ بمبوریت ہے جہاں ہمارے والے کالاشی آباد ہیں۔ نورستان والے کالاشی سو فیصد مسلمان ہوچکے ہیں مگر وہاں لباس اور زبان ابھی تک زندہ ہیں۔ ہماری طرف کوئی کالاشی مسلمان ہوجائے تو اپنا مذہب ترک کر دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ خیالات کے ساتھ اسے لباس اور زبان بھی چھوڑنا ہوتی ہے۔ ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم سیاحت کو فروغ دے رہے ہیں۔