1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سفر و سیاحتایشیا

سیاحت: نانگہ پربت کی پریاں اب کہاں رہتی ہیں؟

4 اگست 2021

مری وہ مقام ہے، جہاں کبھی غیر ملکی سیاح چہل پہل کرتے نظر آتے تھے۔ اب مقامی لوگوں کو بھی دستار دونوں ہاتھوں سے تھام کر کر تیزی سے گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی تو ناک پر رومال رکھ کر بھی گزرنا پڑتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3yXIT
DW Urdu Blogger Farnood Alam
تصویر: Privat

ماحولیاتی آلودگی پہلے بھی بہت تھی، اب اخلاقی آلودگی نے وختہ ڈال رکھا ہے۔ موج مستی سمجھ آتی ہے، یہاں تو ہلڑ بازی نے ثقافتی چولا اوڑھ لیا ہے۔ سڑکوں پر موجود ہوٹلوں کے ہرکارے تو جیسے ہر آتے جاتے کا دامن کھینچنے کے لیے تعینات کیے گئے ہوں۔ ہوٹلوں کے مینیجر اور ان کے کارندے کچھ ایسے تاو کھائے ہوئے بیٹھے ہوتے ہیں، جیسے ننانوے قتل کر چکے ہوں سو ویں کی تلاش میں ہیں۔ ڈرائیوروں کے ماتھے پہ جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے کہ یہ دنیا ہمارے سینگوں پر کھڑی ہے۔ ہلکا سا بھی چھینکیں گے تو یہ برفانی تودے تمہارے سروں پر آن گریں گے۔ لکھنو کے لہجے میں بات کر لیں تو بھی ماسیر جان کو ہٹلر ہو جاتے ہیں۔ اس علاقے میں کوئی کیوں جائے، عزت کا سپیشل فالودہ بنوانے؟

جھیل سیف الملوک کا ذکر آتا ہے تو آپ کو بتایا جاتا ہے کہ وہاں کے برف زاروں میں پریاں رہتی ہیں۔ یہ سن کر تصور کے پردے پر فروزن کی بڑی سی تھری ڈی تصویر نقش ہو جاتی ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ ہم اڑن طشتری پر وہاں پہنچیں گے تو ایلسا اور اینا برفاب جھیل کے کنارے بیٹھ کرDo you want to build a snowman گا رہی ہوں گی۔ شرارتی سی مچھلیاں آئیں گی اور تلوے پہ کھجا کر کہیں چھپ جائیں گی۔ آسمان نے تاروں بھری چادر اوڑھی ہوئی ہو گی اور پانی میں چاند ہچکولے کھا رہا ہو گا۔ جہاں نظر ماریں گے وہاں دھنک کے رنگ وغیرہ ہوں گے۔ لیکن خاک؟

ٹوٹی پھوٹی سڑک پر سے گزرتی ہوئی گاڑیوں میں مسافروں کی حالت دیکھ کر لگتا ہے جیسے ترازو میں مینڈک تُل رہے ہوں۔ پہنچتے ہیں تو سب سے پہلے ہوا کا ایک جھونکا آپ کا استقبال کرتا ہے، جو گھوڑوں اور خچروں کی لید پلید کا سڑاندی بھپکا ساتھ لے کر آتا ہے۔ تھوڑا آگے بڑھتے ہیں تو لگتا ہے جھیل کے کنارے بسکٹ، چپس، پانی، جوس، پیمپرز اور سگریٹ بنانے والی کمپنیوں نے اپنی کوئی اشتہاری مہم چلائی ہوئی ہے۔ کون سی کمپنی ہے، جس کا ریپر آپ کو یہاں پڑا ہوا نہیں ملتا۔

جھیل کے کنارے کوئی اپنا مثانہ ہلکا کرنے کا تصور بھی کر سکتا ہے بھلا؟ کچھ لوگ تو اپنے بچوں کا کیا دھرا ڈائیپرز میں سمیٹ کر ایسے پھینک جاتے ہیں جیسے نانگہ پربت کی بُھوتنیاں شدت سے اس سوغات کا انتظار کر رہی تھیں۔ لوگ بھی کیا کریں؟ سرکار نے کُل ملاکر چار حاجت خانے بنائے ہوتے ہیں، جن کی حالت دیکھ کر صحت مند انسان کو قبض کی شکایت ہو جاتی ہے۔ مگر سرکار بھی کیا کرے؟ لوگ بھی تو اپنے کیے کرائے پر پانی پھیرنے کو ناشکری سمجھتے ہیں۔ دیواروں تک پر سیاحوں نے دھاریں ماری ہوتی ہیں اور اسی دیوار پر ہجر و وصال کے مصرعے بھی درج کیے ہوتے ہیں۔ جو انسان فرصت سے حاجت خانے کی دیوار پہ صنم بے وفا لکھ کر دل بناتا ہے اور اس میں آڑھا ٹیڑھا سا ایک تیر گھونپتا ہے، اس انسان کو اپنا کھاتہ کلئیر کرنے کے لیے کتنا وقت چاہیے؟ یہ سارا منظر نامہ دیکھ کر بھی اگر کسی کو پریوں کی سوجھتی ہے تو اسے رضاکارانہ طور پر جھیل کے پانیوں پر واک کرنی چاہیے۔ پریاں؟ ظالمو یہاں اگر پریاں ہوتی بھی ہیں تو کیا ابھی تک دم گھٹنے سے مر نہیں گئی ہوں گی؟

لے دے کر اس ملک میں ایک شمال ہے، جہاں آپ کو تہذیب شائستگی اور صحت و صفائی کا کوئی چلن نظر آتا ہے۔ یہاں کے پہاڑوں میں کچرے کا جمعہ بازار لگا ہو انہیں ملتا۔ جھیلوں کے کنارے گندگی کے ثبوت بھی پھیلے ہوئے نہیں ملتے۔ پلاسٹک بیگ، پانی کی بوتلیں، جوس کے ڈبے اور پیمپرز کہیں نظر آجائیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہاں سے اسلام آباد لاہور کے مہذب لوگ گزرے ہوں گے۔ جن کے خوف سے راول جھیل کا دائرہ سہم کر سکڑتا جا رہا ہے اور مرگلہ کے پہاڑوں میں جو روزانہ کی بنیاد پر پلاسٹک کی بوتلیں اُگا رہے ہیں۔ یا پھر ہزاروں سال سے متمدن چلے آنے والے وہ لوگ یہاں سے گزرے ہیں، جو یومیہ لاکھوں ٹن کچرا کراچی کے سمندر میں پھینک رہے ہیں۔ شفا خانوں، کتب خانوں، درس گاہوں، دفاتر اور پریس کلب کے دروازوں تک پر جو پان کی پچکاری مار کر اطمینان سے گزر جاتے ہیں۔

وقار ملک ہاتھ سے پکڑ کے ہمیں شیر قلعہ کی ایک جھیل پر لے گیا۔ سبحان اللہ کیا شفاف جھیل ہے۔ اتنی شفاف کہ تیرتی ہوئی مچھلی کی آنکھ کا نوشتہ بھی آپ پڑھ سکتے ہیں۔ جھیل کیا ہے شیر قلعہ کی بلوری آنکھ ہے۔ راجہ فخر عالم نامی ایک فقیر نے یہاں کٹیا بسائی ہوئی ہے۔ یہ فقیر خدا واسطے اس جھیل کو اپنے دل کی طرح صاف شفاف رکھتا ہے۔ قدرت نے اس کے بدل میں جھیل کے سارے رنگ راجہ فخر کی آنکھوں میں اتار دیے ہیں۔ یہ آنکھیں وقار کی ٹائم لائن پر ابھی بھی رکھی ہوئی ہیں۔ ہم گئے تو یہاں آدم تھا نہ آدم کی ذات تھی۔ پتہ چلا کہ بہت کم لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ دن میں کوئی ایک آدھ بندہ پوچھتا پاچتا یہاں پہنچتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہاں پچھلے دو دن میں کتنے لوگ آئے ہوں گے۔ بتایا گیا کہ یہ دوسری فیملی ہے۔ صرف دو فیملیاں، جہاں سے گزری تھیں وہاں بدتہذیبی کے تیس سے زیادہ ثبوت موجود تھے۔ فقیر آئے گا یا اس کی بیٹی آئے گی اور مہذب کہلانے والوں کے کرتوت صاف کر کے جائے گی۔

نانگہ پربت کی پریاں ہجرت کر کے کُمراٹ چلی گئی تھیں۔ دو سال میں انہیں اندازہ ہو گیا کہ اگر سیاحت کو اسی رنگ ڈھنگ سے فروغ دیا گیا تو انشااللہ اگلے پانچ سالوں میں یہاں بھی سانس لینا دشوار ہو جائے گا۔ بروقت دنیا سمیٹ کر پریاں نلتر کے برف زاروں اور لالہ زاروں کی طرف نکل گئیں۔ ابھی پرستان ٹھیک سے آباد ہوا بھی نہیں تھا کہ  ایک جانب سے کالا سیاہ دھواں اٹھتا ہوا دکھائی دیا۔ خبر آئی کہ گلگت شہر سے نلتر تک کے لیے سڑک کا ایک جال بچھایا جا رہا ہے۔ یہ سڑک بنے گی تو مہذب سیاحوں کا ہجوم صرف بیس سے پچیس منٹ میں نلتر پہنچ جایا کرے گا۔ سنتے ہیں کہ پرستان کی ملکہ نے نئے ٹھکانے کی تلاش میں پریوں کو روانہ کر دیا ہے۔