1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قائم رہیں دائم چترال تیرے سُرتال

29 مئی 2021

چترال سارا کا سارا سُریلا ہے۔ چترال کا تصور گلگت کے بغیر میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس کی آواز میں ٹھہراؤ ہے اور لہجے میں ایک ردھم ہے۔ لفظ کی یہاں قدر ہے اور مصرعے کا احترام ہے۔ فرنود عالم کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3u9Ug
فرنود عالمتصویر: Privat

چترال میں میرا بچھونا بہشت کی طرف کھلنے والی ایک کھڑکی کے نیچے لگا ہوا تھا۔کھڑکی سے متصل چھوٹی سی ایک نہر گزرتی تھی جو رات کو لوریاں سناکر سلاتی تھی۔ اسی کے ساتھ لگے درخت کی اونچی شاخ پر ایک پرندہ صبح دم راگ بھیرویں چھیڑ کر مجھے جگاتا تھا۔ اساتذہ سے پتہ چلا کہ اس مُطربِ خوش آواز کو مایون کہتے ہیں۔ بہار کی ہوائیں چلتی ہیں تو مایون کے سُر کھلنے لگتے ہیں۔ انجیر پکنے تک یہ فضاؤں میں یونہی رس گھولتا رہتا ہے۔ انجیر کھاتا ہے تو اس کی نغمہ سرائی کو لمبی سی ایک چُپ لگ جاتی ہے۔ اگلی بہار آنے تک یہ دن بھر نغمہ بن کر کسی گلوکار کی خوش نوائیوں میں رہتا ہے۔ شام ہوتی ہے تو شعر بن کر کسی شاعر کے دل میں سوجاتا ہے۔

چترال سارا کا سارا سُریلا ہے۔ چترال کا تصور گلگت کے بغیر میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس کی آواز میں ٹھہراؤ ہے اور لہجے میں ایک ردھم ہے۔ لفظ کی یہاں قدر ہے اور مصرعے کا احترام ہے۔ سماعتیں اچھی آوازوں کی عادی ہیں اور نگاہوں کو بھلے رنگوں کی پہچان ہے۔ نمائندہ مذہبی رسوم و روایات میں بھی موسیقی کو یہاں وسیلے کا درجہ حاصل ہے۔ تبھی تو مایون نے اپنے بچوں کی پرورش کے لیے اس علاقے کا انتخاب کیا ہے۔ جس بستی میں شاہین جیسے پلٹ جھپٹ پرندوں کو فضیلت حاصل ہو، مایون کا دل اس بستی میں لگے بھی تو کیوں لگے۔ 

باتوں سے دودھ پنیر اور ساگ مکئی کی مہک ویسے ہی نہیں آتی، مادری زبان میں بات کرنا پڑتی ہے۔ انگریز سرکار نے چترال پر بھی راج کیا ہے، مگر ان کے لہجوں کو برٹش ایکسینٹ نے آلودہ نہیں کیا۔ ہر دوسرا نہیں تو ہر تیسرا شخص یہاں کھوار زبان کا شاعر ہے۔ جو شاعر نہیں ہے وہ خاندان در خاندان سِتار نواز ہے۔ جو ان دونوں میں سے نہیں ہے وہ رمز شناس ہے اور قدر دان ہے۔ جہاں لوگ زمین اور زبان سے جڑت رکھتے ہوں وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جن علاقوں میں ثقافت کے رنگ گہرے ہوتے ہیں وہاں کوچوان شعر کہتا ہے اور چرواہا بانسری بجاتا ہے۔

چترال کی حسین آنکھ کا پھیلتا ہوا کاجل

فرد کے ذاتی دائرے اور شعور کا امتحان

دانشور سے نہیں، ٹِک ٹاک کی اہمیت کا اشرافیہ سے پوچھیے

چترال میں ہم کامریڈ انوار کی راج دھانی میں تھے۔ خود قیامت شاعر ہیں اور بھائی شاعروں کے شاعر ہیں۔ صبح مایون کی اذانِ سحر سے ہوتی تھی اور رات سِتار کی دُھن پر ٹوٹتی تھی۔ ایسا کسی اہتمام کے تحت نہیں ہوتا تھا، روا روی میں ہوجاتا تھا۔ ہمارے ہاں بیٹھک میں جس طرح بات چائے اور کھانے کی طرف نکل جاتی ہے، یہاں کہانی موسیقی کی طرف نکل جاتی ہے۔ اپر چترال کے آسمان پر کب کالی گھٹائیں پھیل جائیں اور زمین پر کب سِتار بجنے لگ جائے، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

ہم بیٹھے ہیں، دو لوگ داخل ہوتے ہیں، تعارف ہوتا ہے کہ یہ دونوں رباب نواز ہیں اور استاد شاگرد ہیں۔ یہ گئے تو ایک پھرتیلا لڑکا آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پڑھتا ہے اور سِتار بجاتا ہے۔ دائیں بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے سِتار ڈھونڈا جاتا ہے، نہیں ملتا۔ کہیں سے رباب نکل آتا ہے تو کاشف کہتا ہے، یہ بجانا نہیں آتا مگر آپ کے لیے کچھ کوشش ضرور کروں گا۔ حجرے کے باہر نہر بہہ رہی ہے اندر کاشف نے دھیمے دھیمے سے سُر چھیڑے ہوئے ہیں۔ جیسے انگور کے پانیوں پر پریاں تیر رہی ہیں۔

ہم بیٹھے ہیں اور ایک جوانِ رعنا چلا آتا ہے۔ یہ اقتدار حسین ہے اور رباب نواز ہے۔ اس کا والد موسیقی اوڑھتا ہے اور موسیقی پیتا ہے۔ اس کی 17 برس کی چھوٹی بہن طبلہ نواز ہے۔ باتیں ہو رہی ہیں اور قدر کی 27 رات گہری ہو رہی ہے۔ اقتدار یونہی رباب کے تاروں پر مضراب پھیرتا ہے اور من کی دنیا میں تتلیاں اڑنے لگتی ہیں۔ ذوق کو بے تاب دیکھ کر وہ تاریں کستا ہے اور راگ ایمن چھیڑدیتا ہے۔ ہجر کا تار چھیڑ کر برف میں آگ لگاتا ہے کبھی آگ پر وصل کا پانی چھڑکتا ہے۔ خدا کے حضور مترنم گنان پیش کرتا ہے اور سارے راگ سمیٹ کر واپس چلاجاتا ہے۔ 

افسوس رہے گا کہ ایک منظر کو میں تصویر نہ کرسکا۔ ہم کوراغ کے سنسان بازار میں ایک دکان کا شٹر اٹھنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ سنسان سڑک پر ایک دھان پان بابا جی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے سامنے سے چلے آرہے ہیں۔ دونوں ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے ہیں اور اس میں بڑا سا ایک سِتار اٹکا ہوا ہے۔ لکڑی کی تازگی اور تاروں کی ناموجودی بتا رہی ہے کہ سِتار ابھی کہیں سے آرڈر پر بنوایا ہے۔ گھر جائیں گے تو لرزتے ہاتھوں سے خود اس کی تاریں جوڑیں گے اور چاندنی راتوں میں بہت ٹھہراؤ والی دھنیں چھیڑ کر روح کی ساری تھکن اتاردیں گے۔

شپیشون میں ہم نے خیمہ گاڑ لیا تو فخر عالم کو رہنما کرتے ہیں اور بونی زوم کے سامنے کی ایک چوٹی سر کرنے نکل جاتے ہیں۔ برفیلی چھاؤں پھیلنے لگتی ہے تو ہم واپس اپنے خیمے کی طرف اتر نے لگتے ہیں۔ یکایک جوانوں کا ایک جھنڈ آتا ہے اور یہاں وہاں خیمے نصب کرنے لگتا ہے۔ ہم پہنچتے ہیں تو لگتا ہے کہ یہ شام محض شام نہیں ہے، شام چوراسی ہے۔ ہری بھری زمین پر طبلہ، رباب، سِتار، پیانو اور بانسری پھیلے پڑے ہیں۔ سورج بونی زوم پر آخری کرنیں بکھیرتا ہوا ترچ میر کے پہلو میں غروب ہورہا ہے۔ پرندے آشیانوں کی طرف اور ہم شامیانوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ خاموشی تہہ دار ہوگئی ہے، رات گہری ہوگئی ہے اور آسمان نے تاروں بھری ایک چادر اوڑھ لی ہے۔ اوپر ٹھنڈا چاند چمک رہا ہے اور نیچے طبلے کی تھاپ پر شاعر تھرک رہا ہے۔ 

عید کے پہلے دن کچھ ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جو طبعیت کے بہت نفیس ہیں۔ یہ عبداللہ شہاب ہیں۔ ادب کے استاد ہیں اور شعر کہتے ہیں۔ وہ فرہاد یوسفی ہیں۔ جنگل کی نگہبانی کرتے ہیں اور مصرعے جوڑتے ہیں۔ جاوید صاحب یوں تعارف کرواتے ہیں، میں کاشف کا والد ہوں جو سِتار بجاتا ہے۔ شمس صاحب کہتے ہیں، میرا بچہ گٹار بجاتا ہے اور اب میں اکیڈمی میں اس کا داخلہ کروانے والا ہوں۔ سہیل صاحب کہتے ہیں، میرے بچے سے آپ نہیں ملے ہوں گے، رقص میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ کاشف نام کے ایک اور دوست ہیں۔ اکثر ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ روایتی خوردے لے کر آتے ہیں۔ ایک شام آئے تو ساتھ ایک شرمیلا سا لڑکا برتن اٹھائے چلا آرہا ہے۔ کاشف نے کہا، ''یہ چھ  سات انسٹرومنٹس بجاتا ہے اور این سی اے لاہور میں داخلہ لینے والا ہے۔ یہ پانچ چھ بھائی ہیں سب موسیقی کے مارے ہوئے ہیں۔‘‘ ہمارے بیٹھے ایک شخص کھڑکی کی دوسری طرف سے باورچی خانے کی طرف جاتا ہے۔ کچھ برتن اس کے بھی ہاتھ میں ہیں۔ میں ٹھیک سے دیکھ نہیں پاتا مگر آواز آتی ہے، ''یہ بھی دوست ہیں اور غضب کے موسیقار ہیں۔‘‘ استاد ظہور الحق کے سیل فون پر کال آتی ہے تو رنگ ٹون توجہ کھینچ لیتی ہے۔ دل پوچھتا ہے، از کُجا می آید ایں آوازِ دوست؟ جواب آتا ہے، یہ مایون کی آواز ہے میں نے خود ریکارڈ کی تھی۔ دیر تک اساتذہ ترنم کی اور مایون کی باتیں کرتے ہیں، ہم سنتے ہیں۔  

کچھ وقت ریشُن کی ایک دودھیالی آبشار کے نیچے گزرتا ہے۔ آبشار کے پہلو میں دھنک کے رنگ چہل قدمی کرتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو سردار اعظم اور تنویر سے پوچھ لیجیے۔ پلٹے تو نئی نئی ماں بننے والی بلی کی طرح سات گھروں کے چکر کاٹتے رہے اور دودھ کے پیڑے کھاتے رہے۔ آخری گھر پہنچے تو استاد عطا حسین اطہر نے ایک سیاہ پوش جوان کی طرف اشارہ کرکے کہا، یہ لڑکا پورے چترال پر چھایا ہوا رقاص ہے۔ اسلام آباد کی محفلوں میں چترال کی نمائندگی یہی جوان کرتا ہے۔ استاد شمسی نے ہاتھ پکڑا اور دریا کے کنارے ایک گھر لے گئے۔ حجرے کی دیوار پر مختلف سائز کے سِتار اور رباب لٹکے ہوئے ہیں۔ زمین پر پیانو اور ایک جیری کین رکھا ہے۔ ساتھ ایک خستہ سا مسودہ رکھا ہے۔ یہ امان اللہ غازی کی کھوار شاعری ہے جس کا لوگ انتظار کر رہے ہیں۔ چار بھائی آئے، ایک نے سِتار اٹھایا، ایک نے رباب پکڑا، ایک نے پیانو سیدھا کیا اور ایک نے جیری کین سے دھول جھاڑی۔ دریا کی لہروں کے ساتھ دھنیں بکھیرتے گئے اور گیت گاتے گئے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ جو شخص کیمرے کے پیچھے بیٹھا ہے یہی امان اللہ غازی ہے۔ جو گیت گائے جارہے ہیں وہ اسی کی تخلیق ہیں۔ محفل جوبن پہ آئی تو استاد اطہر اور شمسی استاد سراپا رقص ہوگئے۔ مزاج پر امان اللہ غازی بھی قابو نہ رکھ پائے۔ اول کیمرا چھوڑ کر تالیاں پیٹنے لگے اور انجامِ کار خود ستار سنبھال کر تان توڑنے لگے۔ آپ نے یقینا ایسا کوئی گھرانہ دیکھا ہوگا جو سارا کا سارا سُر میں ہو اور وزن میں ہو، میں نے اِس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔  

بابائے لاسپور ماضی قریب کی تاریخ ہیں۔ فاتحِ سکردو لیفٹیننٹ ولایت خان کے فرزند تھے۔ اُن کے فیصلوں کو ابھی کل تک بھی عدالتی فیصلوں سے زیادہ اعتبار حاصل تھا۔ بڑے دسترخوانوں کی لوگوں نے کہانیاں سنی ہیں، لاسپور سے گزرنے والے قافلوں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ان کے جوتے میں اب ایفتالی صاحب کا پاؤں ہے۔ تیس برس کی محنت سے انہوں نے لاسپور میں ایک حیرت کدہ تعمیر کیا ہے۔ اس کی دیواروں پر گئے وقتوں کے نشان ملتے ہیں۔ پولو کے یادگاری آلات، گھڑ سواری کے لوزمات، جنگ عظیم دوئم میں استعمال ہونے والے ہتھیار، اس سے بھی پہلے کے تیر و تبر اور زرہ بکتر، شاہوں کے تحائف، فاتحوں کے تغمے، شکست خوردوں کا مال غینیمت،  قاضیوں کی مہریں، تاریخی نوشتے، جام و پیمانے، شاہوں کے آب خورے، قابیں اور رکابیاں، قدیم چرخے، کالاشیوں کے پہناوے، صدیوں پرانا زیور اور موسیقی کے آلات یہاں موجود ہیں۔ حیرت کدے کے بیچوں بیچ ایک خاکہ کمرے کا کھینچا ہوا ہے۔ ایک طرف چرخہ رکھا ہے اور دوسری طرف سِتار رکھا ہوا ہے۔ ایفتالی صاحب نے سادگی سے ایک جملہ کہا مگر صدیوں کو محیط تہذیب کی ایک تصویر کھنچ گئی۔ بولے، یہاں میری بیوی بیٹھ کر چرخہ چلاتی تھی اور میں ساتھ بیٹھ کر سِتار بجاتا تھا۔

ایسا لگتا ہے، خدا جب چترال کی بنیادیں اٹھا رہا تھا تو بہار کا موسم تھا اور چودھویں کی رات تھی۔ مایون چِنار پہ بیٹھ کر کھوار کا کوئی گیت گارہا تھا اور سرسوتی دریا کنارے سِتار بجارہی تھی۔