1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئی اے رحمٰن کی رحلت

12 اپریل 2021

پاکستان کے ممتاز صحافی اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے بانی رکن آئی اے رحمٰن ( ابن عبدالرحمٰن) انتقال کر گئے۔ ان کی عمر نوے برس تھی اور وہ پچھلے کچھ عرصے سے شوگر اور بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا تھے۔

https://p.dw.com/p/3rt4V
Pakistan Tag der Menschenrechte
تصویر: DW/I. Jabeen

 1930ء میں ہریانہ میں پیدا ہونے والے آئی اے رحمٰن کا خاندان تقسیم ہند کے بعد پاکستان منتقل ہوا۔ وہ پہلے ملتان کے نردیک شجاع آباد کے علاقے میں رہے بعد ازاں لاہور منتقل ہو گئے۔ آئی اے رحمٰن نے علی گڑھ سے تعلیم پائی بعد ازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی فزکس کیا۔

پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ: امریکی رپورٹ

صحافت سے وابستگی

پینسٹھ سال صحافت سے وابستہ رہنے والے آئی اے رحمٰن نے سن 1949 میں لکھنے کاآغاز کیا۔ پاکستان ٹائمز، روزنامہ آزاد اور ویو پوائنٹ کے لئے کام کرنے کے علاوہ وہ مختلف اخباروں کے لئے کالم لکھتے رہے۔ انگریزی روزنامے ڈان میں ان کا کالم باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔ انہوں نے اپنے صحافتی کیرئر کا آغاز میاں افتخارالدین کے پروگریسو پیپرز لیمیٹڈ والے انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز سے کیا۔ وہ طویل عرصے تک اسی اخبار سے وابستہ رہے، انہوں نے اردو کا روزنامہ آزاد بھی نکالا لیکن یہ منصوبہ معاشی اعتبار سے مفید ثابت نہ ہو سکا۔

Ibn Abdur Rehman
جرمن شہر نیورمبرگ میں انٹرنیشنل پرائز برائے انسانی حقوق وصول کرنے کے بعد آئی اے رحمٰنتصویر: Peter Roggenthin/dpa/picture alliance

انسانی حقوق کمیشن پاکستان

پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کے پلیٹ فارم سے بھی وہ آئین کے تحفظ، انسانی حقوق کی پاسداری، قانون کی حکمرانی اور جمہوری اقدار کی حفاظت کے لئے جدو جہد کرتے رہے۔ آئی اے رحمٰن ساری زنگی معاشرے کے کمزور طبقات کے حق میں آواز اٹھاتے رہے۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے ڈائریکٹر اور سیکریٹری جنرل بھی رہے۔ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئی بین الاقوامی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ پاکستان کی سیاسی سماجی اور صحافتی شخصیات نے آئی اے رحمٰن کی رحلت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

جبری گمشدگیوں پر بل مسترد، کئی حلقوں کا افسوس

جرات و بیباک انسان

ممتاز صحافی اور سینئر تجزیہ کار شاہد ملک بتاتے ہیں کہ ضیا الحق کے دور حکومت میں انہوں نے جس جرات اور بے باکی سے لکھا اس کی مثالیں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ، ''مجھے یاد ہے کہ ہر جمعے کے روز  جب ان کی سربراہی میں انگریزی کا ہفت روزہ جریدہ ''ویو پوائینٹ‘‘ چھپ کر مارکیٹ میں آتا تو اس کی کاپیاں ہاتھوں ہاتھ بک جاتیں۔،سیاسی شعور رکھنے والے لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس کے نئے شمارے کے انتظار میں رہتی۔‘‘

Ibn Abdur Rehman
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے اراکین ماروی سرمد اور غازی صلاح الدین کے ساتھ آئی اے رحمٰن تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

محتاط اور با ہمت قلمکار

شاہد ملک نے یہ بھی کہا، ''میرے خیال میں انسانی حقوق کا معاملہ بہت حساس نوعیت کا ہوتا ہے، بعض اوقات لوگ جذبات میں آ کر اس ضمن میں سرگرمی کا مظاہرہ تو کرتے ہیں لیکن راستے کی مشکلات سے گھبرا کر جلد ہی تھک جاتے ہیں، لیکن آئی اے رحمٰن کا معاملہ مختلف تھا، وہ ایسے جذبے سے کام لیتے جو شعور کی آنچ پر پک گیا ہوتا، وہ احتیاط کا دامن نہ چھوڑتے، قانون کے دائرے میں رہتے اور ہمیشہ زبان کا استعمال ذمہ دارانہ طریقے سے کرتے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں کبھی ناپختگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

برطانوی رپورٹ کی مذمت پر مذہبی امور کمیٹی تنقید کی زد میں

یہ امر اہم ہے کہ آئی اے رحمٰن  کے قلم سے لکھے جانے والے موضوعات کی تعداد  بہت وسیع تھی۔ وہ آئینی، سیاسی ، سماجی اور بین الاقوامی امور کے ساتھ ساتھ  انسانی حقوق اورفنون لطیفہ سمیت دیگر موضوعات پر بھی لکھتے رہے۔

Ibn Abdur Rehman
پینسٹھ سال صحافت سے وابستہ رہنے والے آئی اے رحمٰن نے سن 1949 میں لکھنے کاآغاز کیاتصویر: Peter Roggenthin/dpa/picture alliance

محب وطن اور انسان دوست

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ میاں خورشید محمود قصوری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ، ''آئی اے رحمٰن ان کے والد میاں محمود علی قصوری کے دوستوں میں سے تھے۔ لاہور میں چار فین روڈ پرموجود ہمارا گھراپوزیشن کی سرگرمیوں اور مزاحمتی تحریکوں کا مرکز بنا رہتا تھا، ان دنوں  آئی اے رحمٰن  کا حسین نقی، مظہر علی اور دیگر ترقی پسند رہنماوں کے ساتھ ہمارے گھر آنا جانا رہتا تھا۔ بعد ازاں عاصمہ جہانگیر کے ہاں بھی ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔‘‘ خورشید قصوری کا کہنا ہے کہ انہوں نے آئی اے رحمٰن کو ایک با اصول، محب وطن اور انسان دوست شخص پایا۔ خورشید قصوری کے بقول ’’آئی اے رحمٰن اپنی صحافتی تحریروں میں بھی معاشرے کے کمزور طبقات کی آواز بنے۔ وہ اقلیتوں، مزدوروں، سیاسی کارکنوں اور مظلوم لوگوں کے حق میں آواز اٹھاتے رہے۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔‘‘