ممبئی حملے: پاکستان میں ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت اگلے ہفتہ سے
12 جولائی 2009رحمان ملک نے ہفتہ کے روز اسلام آباد میں قائم مقام بھارتی ہائی کمیشنر کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ پاکستان اپنے ملکی قوانین کے مطابق ممبئی حملوں میں مشتبہ طور پر ملوث غیر ریاستی عناصر کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بھارتی حکام نے ان مشتبہ دہشت گردوں کے زیر استعمال موبائل فونوں کے sim کارڈز، کریڈٹ کارڈز اور اسی نوعیت کی دیگر بہت سی معلومات ابھی تک پاکستانی تفتیشی اداروں کو فراہم نہیں کیں۔
پاکستانی وزیر داخلہ نے زور دے کر کہاکہ بھارتی الزامات کے برعکس پاکستان شروع سے ہی ممبئی حملوں کی تفتیش انتہائی سنجیدگی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ کر رہا ہے: "بھارت نے 28 نومبر کو تفتیش شروع کی تھی اور نو مئی کو بھارتی ماہرین نے اپنا کام ختم کیا تھا۔ پاکستانی اداروں نے اپنی تحقیقات 16 جنوری کو شروع کی تھی جو اسی مہینے مکمل بھی ہو چکی ہے۔ اس لئے جو عناصر یہ دعوے کرتے ہیں کہ پاکستانی ماہرین سست رفتاری سے کام کررہے ہیں، میں صرف شہادتی مواد پر بات کرتا ہوں، انہیں اب اپنا موقف بدل لینا چاہیے کیونکہ پاکستانی تفتیش کار اپنا کام نہایت ہی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ اور بہت بہتر اور اچھے انداز میں مکمل کر چکے ہیں۔"
صحافیوں کے ساتھ اپنی گفتگو میں رحمان ملک نے کہا کہ ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار پانچ ملزمان کے خلاف تحقیقات مکمل کر کے چالان پروسیکیوٹر جنرل کے حوالے کر دیا گیا ہے اور ان ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت اگلے ہفتہ شروع ہو جائے گی جو سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر جیل کے اندر ہی مکمل کی جائے گی۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ موجودہ حالات میں پاکستان اور بھارت کو اپنے مشترکہ دشمن کی چالیں اچھی طرح سمجھنا ہوں گی، رحمان ملک نے کہا: "یہ وہی غیر ریاستی عناصر ہیں جنہوں نے یہ معاملہ شروع کیا۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صورتحال جنگ کی حد تک کشیدہ بنا دیں۔ میرے خیال میں یہی ان کا مقصد اور ایجنڈا ہے، وہ چاہے لکھوی ہو، بیت اللہ محسود یا فضل اللہ، ایسے عناصر کا مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے پاکستان کو غیر مستحکم بنانا۔"
ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وزیر داخلہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 2001 سے لے کر آج تک 15 ہزار پاکستانی ہلاک ہو چکے ہیں اور اسی لئے "بھارت کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام کسی بھی طور درست نہیں ہے۔"
رپورٹ : شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: مقبول ملک