1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہم سب اوسطاﹰ فی کس بیس کلو گرام پلاسٹک کھا جاتے ہیں

8 دسمبر 2020

کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ آپ شاپنگ بیگز کی نوڈلز، کریڈٹ کارڈ سے بنا ہوا برگر یا پی وی سی پائپ کا بنا ہوا اسٹیک کھائیں؟ نہیں نا؟ اس کے باوجود ہم میں سے ہر ایک اپنی پوری زندگی میں اوسطاﹰ بیس کلو گرام تک پلاسٹک کھا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3mQ3L
مائیکرو پلاسٹک ٹوتھ پیسٹ میں بھی پایا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer

جدید دور کی انسانی زندگی میں ہم سب بظاہر نا کھانے کے باوجود اس لیے بہت سا مائیکرو پلاسٹک بھی کھا پی جاتے ہیں کہ اشیائے ضرورت اور اشیائے خوراک کی تیاری، خریداری اور استعمال میں ہر جگہ پلاسٹک کا بے تحاشا استعمال کیا جاتا ہے۔

پلاسٹک کے انتہائی باریک ذرات کرہء ہوائی میں

یوں جس طرح قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے، اسی طرح روزانہ بنیادوں پر استعمال کیے جانے والے اس مائیکرو پلاسٹک (پلاسٹک کے مائیکرو سکوپک ذروں) کو جمع کیا جائے تو ایک عام انسان کی زندگی میں اس کے جسم میں پہنچ جانے والے پلاسٹک کا فی کس اوسط وزن تقریباﹰ 20 کلو گرام بنتا ہے۔

پینے کے پانی میں بھی پلاسٹک کے ذرات

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (WWF) انٹرنیشنل کی گزشتہ برس مکمل کی گئی ایک مفصل تحقیق کے بعد کہا گیا تھا کہ یہ عین ممکن ہے کہ عام انسانوں میں سے ہر ایک ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ کے برابر پلاسٹک کھا جاتا ہے۔ اس کی وجوہات بہت متنوع اور بہت زیادہ ہیں، جن میں پینے کے پانی میں شامل کیے جانے والے پلاسٹک کے ذرات سے لے کر شیل فش جیسی انسانی خوراک تک سب کچھ شامل ہے۔

پاکستان میں سالانہ پچپن ارب شاپنگ بیگز کا استعمال

BdW Global Ideas Bild der Woche KW 37/2016 Frankreich Plastikverpackungen
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Combaldieu

شیل فش کی مثال اس لیے دی گئی کہ پانی میں پایا جانے والا مائیکرو پلاسٹک اس مچھلی کے جسم میں بھی پہنچ جاتا ہے اور جب انسان یہ پوری مچھلی کھا جاتا ہے، تو اس کے نظام ہضم میں موجود پلاسٹک کے ذرات بھی انسانی معدے میں پہنچ جاتے ہیں۔

ایک دہائی میں ڈھائی کلو، پوری زندگی میں بیس کلو گرام پلاسٹک

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس تحقیق کے نتائج کی عملی وضاحت کے لیے ماہرین کی مدد سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ ہم سب اوسطاﹰ جو پلاسٹک کھا جاتے ہیں، اس کی فی کس مقدار کتنی ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج کے دور کا ایک عام انسان سال بھر کے دوران جتنا پلاسٹک کھا جاتا ہے، اس کا وزن کسی فائر بریگیڈ کارکن کے ہیلمٹ کے وزن کے برابر ہوتا ہے۔

سمندروں میں پلاسٹک کا کوڑا، عالمی کنونشن کا مطالبہ

اس طرح اگر سالانہ کے بجائے عشرے کی بنیاد پر دیکھا جائے، تو اپنی زندگی کے ہر دس برسوں میں ہم میں سے ہر کوئی تقریباﹰ 2.5 کلو گرام یا 5.5 پاؤنڈ کے برابر پلاسٹک کھا جاتا ہے۔ ایک عام انسان کی اوسط عمر اگر 80 سال تصور کی جائے، تو اس کا مطلب ہے کہ شعوری طور پر' پلاسٹک نہ کھانے کے باوجود‘ ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی میں اوسطاﹰ 20 کلو گرام یا 44 پاؤنڈ پلاسٹک کھا جاتا ہے۔

Plastikmüll im Ocean
ہر سال پلاسٹک کا کئی ملین ٹن کوڑا عالمی سمندروں میں بھی پہنچ جاتا ہےتصویر: picture-alliance/Photoshot

ہالینڈ میں پرانے پلاسٹک سے تیار کردہ راستہ

فوڈ چین میں پلاسٹک

گزشتہ نصف صدی کے دوران سستی اور صرف ایک بار استعمال میں آنے والی اشیاء کی تیاری کے لیے پلاسٹک کی پیداوار اور استعمال دونوں کے حجم کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔

پلاسٹک وقت کے ساتھ گل سڑ کر پھلوں اور سبزیوں کی طرح زمین اور فطرت کا حصہ نہیں بن سکتا۔ اس لیے کہ اس کی مادی ہیئت عشروں بلکہ صدیوں تک قائم رہ سکتی ہے۔

پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم بھی ہو جاتا ہے، اور یہی ٹکڑے بعد میں زمینی اور سمندری علاقوں میں پھیل جانے کے علاوہ فضا میں بھی پہنچ جاتے ہیں اور انسانی فوڈ چین میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔

پلاسٹک سے آلودگی روکنا چاہتے ہیں؟ تو پیدل چلیے

نینو پلاسٹک اور بھی خطرناک

برطانیہ کی ساؤتھیمپٹن یونیورسٹی کے ماحولیاتی سائنس کے پروفیسر میلکم ہڈسن اس موضوع پر طویل عرصے سے تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ صرف مائیکرو پلاسٹک ذرات ہی نہیں بلکہ ان سے بھی چھوٹے وہ خوردبینی ذرات بھی ہیں، جنہیں نینو پلاسٹک کہا جاتا ہے۔

ارتھ ڈے: پلاسٹک سے پاک سیارہ زمین

نینو پلاسٹک اس لیے اور بھی مضر ہے کہ وہ مائیکرو پلاسٹک کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے پھیلتا ہے اور وہاں تک بھی پہنچ جاتا ہے، جہاں مائیکرو پلاسٹک نہیں پہنچتا۔

پروفیسر ہڈسن کے مطابق، ''یہ نینو پلاسٹک ذرات اتنے خطرناک اور ایسے بہت چھوٹے چھوٹے ٹائم بموں کی طرح ہوتے ہیں، جو انسانی جسم کے دورانِ خون اور دیگر نظاموں کے ذریعے مختلف اعضاء تک پہنچ کر وہاں جمع بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘

م م / ع س (روئٹرز)