ہم سب اوسطاﹰ فی کس بیس کلو گرام پلاسٹک کھا جاتے ہیں
8 دسمبر 2020جدید دور کی انسانی زندگی میں ہم سب بظاہر نا کھانے کے باوجود اس لیے بہت سا مائیکرو پلاسٹک بھی کھا پی جاتے ہیں کہ اشیائے ضرورت اور اشیائے خوراک کی تیاری، خریداری اور استعمال میں ہر جگہ پلاسٹک کا بے تحاشا استعمال کیا جاتا ہے۔
پلاسٹک کے انتہائی باریک ذرات کرہء ہوائی میں
یوں جس طرح قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے، اسی طرح روزانہ بنیادوں پر استعمال کیے جانے والے اس مائیکرو پلاسٹک (پلاسٹک کے مائیکرو سکوپک ذروں) کو جمع کیا جائے تو ایک عام انسان کی زندگی میں اس کے جسم میں پہنچ جانے والے پلاسٹک کا فی کس اوسط وزن تقریباﹰ 20 کلو گرام بنتا ہے۔
پینے کے پانی میں بھی پلاسٹک کے ذرات
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (WWF) انٹرنیشنل کی گزشتہ برس مکمل کی گئی ایک مفصل تحقیق کے بعد کہا گیا تھا کہ یہ عین ممکن ہے کہ عام انسانوں میں سے ہر ایک ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ کے برابر پلاسٹک کھا جاتا ہے۔ اس کی وجوہات بہت متنوع اور بہت زیادہ ہیں، جن میں پینے کے پانی میں شامل کیے جانے والے پلاسٹک کے ذرات سے لے کر شیل فش جیسی انسانی خوراک تک سب کچھ شامل ہے۔
پاکستان میں سالانہ پچپن ارب شاپنگ بیگز کا استعمال
شیل فش کی مثال اس لیے دی گئی کہ پانی میں پایا جانے والا مائیکرو پلاسٹک اس مچھلی کے جسم میں بھی پہنچ جاتا ہے اور جب انسان یہ پوری مچھلی کھا جاتا ہے، تو اس کے نظام ہضم میں موجود پلاسٹک کے ذرات بھی انسانی معدے میں پہنچ جاتے ہیں۔
ایک دہائی میں ڈھائی کلو، پوری زندگی میں بیس کلو گرام پلاسٹک
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس تحقیق کے نتائج کی عملی وضاحت کے لیے ماہرین کی مدد سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ ہم سب اوسطاﹰ جو پلاسٹک کھا جاتے ہیں، اس کی فی کس مقدار کتنی ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج کے دور کا ایک عام انسان سال بھر کے دوران جتنا پلاسٹک کھا جاتا ہے، اس کا وزن کسی فائر بریگیڈ کارکن کے ہیلمٹ کے وزن کے برابر ہوتا ہے۔
سمندروں میں پلاسٹک کا کوڑا، عالمی کنونشن کا مطالبہ
اس طرح اگر سالانہ کے بجائے عشرے کی بنیاد پر دیکھا جائے، تو اپنی زندگی کے ہر دس برسوں میں ہم میں سے ہر کوئی تقریباﹰ 2.5 کلو گرام یا 5.5 پاؤنڈ کے برابر پلاسٹک کھا جاتا ہے۔ ایک عام انسان کی اوسط عمر اگر 80 سال تصور کی جائے، تو اس کا مطلب ہے کہ شعوری طور پر' پلاسٹک نہ کھانے کے باوجود‘ ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی میں اوسطاﹰ 20 کلو گرام یا 44 پاؤنڈ پلاسٹک کھا جاتا ہے۔
ہالینڈ میں پرانے پلاسٹک سے تیار کردہ راستہ
فوڈ چین میں پلاسٹک
گزشتہ نصف صدی کے دوران سستی اور صرف ایک بار استعمال میں آنے والی اشیاء کی تیاری کے لیے پلاسٹک کی پیداوار اور استعمال دونوں کے حجم کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔
پلاسٹک وقت کے ساتھ گل سڑ کر پھلوں اور سبزیوں کی طرح زمین اور فطرت کا حصہ نہیں بن سکتا۔ اس لیے کہ اس کی مادی ہیئت عشروں بلکہ صدیوں تک قائم رہ سکتی ہے۔
پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم بھی ہو جاتا ہے، اور یہی ٹکڑے بعد میں زمینی اور سمندری علاقوں میں پھیل جانے کے علاوہ فضا میں بھی پہنچ جاتے ہیں اور انسانی فوڈ چین میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔
پلاسٹک سے آلودگی روکنا چاہتے ہیں؟ تو پیدل چلیے
نینو پلاسٹک اور بھی خطرناک
برطانیہ کی ساؤتھیمپٹن یونیورسٹی کے ماحولیاتی سائنس کے پروفیسر میلکم ہڈسن اس موضوع پر طویل عرصے سے تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ صرف مائیکرو پلاسٹک ذرات ہی نہیں بلکہ ان سے بھی چھوٹے وہ خوردبینی ذرات بھی ہیں، جنہیں نینو پلاسٹک کہا جاتا ہے۔
ارتھ ڈے: پلاسٹک سے پاک سیارہ زمین
نینو پلاسٹک اس لیے اور بھی مضر ہے کہ وہ مائیکرو پلاسٹک کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے پھیلتا ہے اور وہاں تک بھی پہنچ جاتا ہے، جہاں مائیکرو پلاسٹک نہیں پہنچتا۔
پروفیسر ہڈسن کے مطابق، ''یہ نینو پلاسٹک ذرات اتنے خطرناک اور ایسے بہت چھوٹے چھوٹے ٹائم بموں کی طرح ہوتے ہیں، جو انسانی جسم کے دورانِ خون اور دیگر نظاموں کے ذریعے مختلف اعضاء تک پہنچ کر وہاں جمع بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘
م م / ع س (روئٹرز)