گجرات فسادات: بھارتی عدالت کل فیصلہ سنائے گی
1 جون 2016بھارت کے شہر احمد آباد سے آج یکم جون کو ملنے والی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ان باسٹھ افراد پر قتل، فسادات اور مجرمانہ سازش میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
گجرات فسادات کے دوران ایک ہزار سے زائد افراد قتل کر دیے گئے تھے جن میں سے اکثریت مسلمان شہریوں کی تھی جب کہ احمد آباد میں مسلمانوں کی رہائش گاہوں کو بھی نذر آتش کیا گیا تھا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس وقت ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور ان پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ گجرات فسادات کے دوران منظم قتل عام روکنے کے لیے انہوں نے کوئی اقدامات نہیں کیے۔
وکیل استغاثہ آر سی کوڈیکر کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ اس کیس پر فیصلہ دو جون بروز جمعرات سنا دیا جائے گا۔ یہ کیس متعدد اپیلوں کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوتا رہا ہے اور اس دوران دو ملزمان کا انتقال بھی ہو چکا ہے۔
کوڈیکر کا کہنا تھا کہ انہوں نے عدالت سے فسادات میں ملوث ان تمام باسٹھ ملزموں کو عمر قید کی سزا دینے کی اپیل کی ہے۔
ان افراد نے مبینہ طور پر احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی میں اس رہائشی کمپلیکس کو آگ لگائی تھی جس میں مسلمان شہریوں نے پناہ لے رکھی تھی جس کی وجہ سے وہ لوگ جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔
عمارت جلانے کا یہ واقعہ گجرات فسادات کے ان سینکڑوں واقعات میں سے ایک تھا جن میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان فسادات کا آغاز ستائیس مئی 2002ء کو اس واقعے کے بعد شروع ہوئے تھے جس میں ایک ٹرین کو آگ لگنے کے باعث 59 ہندو یاتری ہلاک ہو گئے تھے جس کا الزام مسلمانوں پر لگایا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد سینکڑوں ہندوؤں نے مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے ان کی آبادیوں پر حملہ آور ہو گئے تھے۔ ان فسادات کا شمار بھارت کی تاریخ میں 1947ء کے بعد کے بدترین فسادات میں ہوتا ہے۔
2012ء میں بھارت کی سپریم کورٹ تشکیل کردہ ایک تحقیقاتی کمیشن اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ان فسادات میں اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ اور موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ خود مودی بھی ہمیشہ ایسے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
موجودہ ٹرائل 2009ء میں بھارتی سپریم کورٹ کی ہدایات پر شروع کیا گیا تھا جس میں سپریم کورٹ نے گجرات فسادات کے دوران رونما ہونے والے قتل عام کے بڑے واقعات کی از سر نو تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا تاہم ایک سال بعد سپریم کورٹ ہی نے اس بات کی تحقیقات کرنے کے خلاف حکم امتناہی جاری کر دیا تھا۔
یہ حکم امتناہی گزشتہ برس ہی ختم ہوا تھا۔ جن باسٹھ ملزمان کے خلاف کل فیصلہ سنایا جا رہا ہے ان میں سے زیادہ تر اس وقت ضمانت پر رہا ہیں۔