1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں اقلتیوں کے حقوق کے لیے کمیشن کا قیام

29 نومبر 2018

پاکستانی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر پیپلز کمیشن کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ یہ کمیشن حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر طویل المدتی بنیادوں پر کام کرے گا۔

https://p.dw.com/p/399FO
Kommission für Minderheiten Pakistan Konferenz
تصویر: Perter Jackob

انسانی حقوق کے ممتاز کارکن  پیٹر جیکب نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی خاطر کوششیں کی جا رہی ہیں اور انہی کوششوں کو مربوط بنانے کی خاطر پیپلز کمیشن کی تشکیل عمل میں لائی گئی ہے۔ جمعرات کے دن لاہور میں منعقد ہوئی ایک تقریب میں اس کمیشن کی بنیاد رکھی گئی۔

اس سلسلے میں منعقد کیے گئے ایک اجلاس میں انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان نے شرکت کی۔ اس اجلاس کے شرکا نے متقفہ طور پر آئی اے رحمان اور پیٹر جیکب کو اس کمیشن کا مشترکہ سربراہ مقرر کیا۔

اقلیتوں کے تحفظ کے لیے قائم کردہ اس کمیشن میں آئی اے رحمان، پروفیسر اے ایچ نیئر، جسٹس کیلاش ناتھ کوہلی، جسٹس ناصرہ جاوید، ڈاکٹر خالد مسعود، وجاہت مسعود اور ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کے علاوہ کئی دیگر شخصیات بھی شامل ہیں۔

سرکاری اور غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے افراد تعلیم و صحت کے معیارات کے اعتبار سے اکثریتی آبادی کے افراد کے مقابلے میں پسماندگی کا شکار ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی 58 فیصد ہے۔ جب کہ مسیحی کمیونٹی میں یہ شرح 34 فیصد جبکہ ہندو برداری میں یہ تناسب 21 فیصد بنتا ہے۔ اسی طرح نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت کے حوالے سے بھی مذہبی اقلیتں زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔

اس اجلاس میں شریک انسانی حقوق کی کارکن فاطمہ عاطف نے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پیپلز کمیشن کا قیام ایک اچھا اقدام ہے اور اس میں حکومت کی شرکت اقلتیوں کی مجموعی صورتحال کی بہتر میں معاون ثابت ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اجلاس سے قبل انسانی حقوق کی وزارت سے بھی مذاکرات کیے گئے تھے اور متعلقہ حکام نے تجاویزات بھی طلب کی تھیں۔

فاطمہ عاطف کے بقول پاکستان میں اقلتیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوششیں کی جاتی رہیں ہیں لیکن ان کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں نسلی اور لسانی بنیادوں پر اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے واضح تقسیم موجود نہیں ہے، جس کے باعث ایسی آبادی کا استحصال ممکن ہو سکتا ہے۔ فاطمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس نئے کیمشن کی کوشش ہو گی کہ پاکستان میں تمام تر اقلیتوں کی شناخت واضح کرتے ہوئے انہیں برابری کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جائے۔

پیپلز کیمشن کے سربراہ پیٹر جیکب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دراصل اس کمیشن میں نہ صرف اقلیتوں کے نمائندوں کو جگہ دی گئی ہے بلکہ اکثریتی آبادی کی اہم شخصیات بھی شامل کی گئی ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں اقلیتوں کی صورتحال کو بہتر بنانے کی خاطر تمام حلقوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ پیٹر جیکب نے مزید کہا کہ سول سوسائٹی اور حکومت کی مشترکہ کوششوں سے معاشرے میں پائی جانے والی تقسیم کو ختم کرنے میں آسانی ہو گی۔

اس ابتدائی اجلاس کے بعد پیپلز کمیشن کے اراکین نے وفاقی حکومت سے استدعا کی کہ حکومت اور عوام کے مابین خلیج کو دور کرنے کی خاطر خیرسگالی کے اقدامات کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ مزید کہا گیا کہ عوامی اور سرکاری تعاون کا جذبہ شہریوں میں تعلقات مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہو گا، لہذا مذہب کی بنیاد پر پسماندگی کو دور کرنا ناگزیر ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں