1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں آوارہ کتوں کا جزیرہ

24 جون 2018

پاکستان کے مالیاتی مرکز کراچی میں ہزاروں آوارہ کتے گلیوں اور محلوں میں گھومتے رہتے ہیں۔ اب کراچی کے کے ساحل سے کچھ فاصلے پر واقع ایک بے آباد جزیرے پر ایسے آوارہ کتوں کو رکھا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/30BBl
Pakistan, Straßenhunde
تصویر: Getty Images/R.Tabassum

آوارہ کتوں سے اس جزیرے کو آباد کرنے کا بظاہر کوئی حکومتی ارادہ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ کراچی کے دو مچھیروں عبدالعزیز اور محمد دادا کی نیک خواہشات اور جانوروں سے پیار کا نتیجہ ہے۔ یہی دونوں مچھیرے ان کتوں کو اپنی کشتیوں کے ذریعے خوراک فراہم کرنے کا تسلسل رکھے ہوئے ہیں۔

کراچی بحیرہ عرب پر واقع ہے اور اس کی ساحلی پٹی سے جنوب کی سمت میں چند کلومیٹر کی دوری پر ایک چھوٹا سا ویران جزیرہ ہے۔ جو پہلے ڈنگی یا بُڈو جزیرہ کہلاتا تھا لیکن اب اِس پر آوارہ کتے رکھے جا رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں آوارہ کتوں کی تعداد پینتیس ہزار سے زائد ہے۔

Pakistan Hunde Vergiftung
پاکستانی شہر کراچی میں تلف کیے گئے کتوں کو ٹرک میں ڈالا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com

آوارہ کتوں کو اس جزیرے تک لانے کا انتظام بھی عبدالعزیز اور محمد دادا نے جاری رکھا ہوا ہے۔ اب یہ بُڈو یا ڈنگی جزیرہ، کتوں کے جزیرے کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس جزیرے پر رکھے گئے آوارہ کتوں کی حتمی تعداد بتانا مشکل ہے لیکن یہ خاصی تعداد میں موجود ہیں۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں حقوق کی گفتگو کرنے والے بہت ہیں لیکن جانوروں کے تحفظ یا حقوق پر بات کرنے والے انتہائی کم احباب ہیں۔ کتے کو بطور پالتو جانور پالنے پر بھی قدامت پسند حلقے تحفظات رکھتے ہیں اور اس کو مذہب کے منافی خیال کرتے ہیں۔

ہزاروں کی تعداد میں کتوں کو تلف کرنا بھی ایک وحشیانہ اقدام تصور کیا جاتا ہے۔ کوئی آوارہ کتا کسی  گاڑی کے نیچے کچلا جائے تو اُسے ٹھکانے لگانے کے بجائے، اُس کی لاش کسی گندگی کے ڈھیر پر ڈال دی جاتی ہے، جو سارے علاقے کے لیے تعفن کا باعث بنتی ہے۔

یہ بھی ایک حقیت ہے کہ بُڈو جزیرے پر سایہ اور پینے کے پانی کی کمیابی ہے۔ اس کے باوجود یہ آوارہ کتوں کا ایک محفوظ مسکن بن چکا ہے۔ عبدالعزیر جب اِن کتوں کے لیے خوراک لے کر جاتا ہے تو وہ اُس کو پہچانتے ہیں اور اُس کی جانب وہ لپک کر پہنچتے ہیں۔

مچھیرے عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ انسان کے اندر رحمدلی کا جذبہ موجود ہونا ضروری ہے۔ ان کتوں کی بقا کا انحصار دونوں مچھیروں کی لائی ہوئی خوراک پر ہے۔ اس جزیرے پر چھوٹے چھوٹے پپیز بھی ہیں جبکہ عبدالعزیز اور محمد دادا اُن کو خوراک علیحدہ سے دیتے ہیں تا کہ بڑے کتے ہی فراہم کردہ ساری خوراک ہضم نہ کر لیں۔ اس خوراک کے ساتھ ساتھ یہ کتے مری ہوئی مچھلیوں کے کنارے پر لگنے کے بھی منتظر ہوتے ہیں۔