’پاکستان بڑے پیمانے پر ’ڈبل گیم‘ کھیل رہا ہے!‘
13 جون 2010طالبان کمانڈروں، طالبان دور حکومت کے سابق وزراء اور افغان و مغربی سیکیورٹی حکام سے بات چیت کے بعد تیار کی گئی اس رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ پاکستان بہت بڑے پیمانے پر ’ڈبل گیم‘ کھیل رہا ہے۔
اس ادارے کی جانب سے اتوار کو جاری کی گئی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کو طالبان کی طاقتور کوئٹہ شوریٰ میں باقاعدہ نمائندگی حاصل ہے جس کے سبب اسے طالبان کی سرگرمیوں میں نمایاں اختیار حاصل ہے۔
رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ صدر آصف علی زر داری نے بھی پاکستان میں قید طالبان کمانڈروں سے جاکر ملاقات کی اور انہیں جلد رہائی کی یقین دہانی کرائی۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے، : ’’افغانستان میں طالبان کو مالی مدد اور تربیت کی گواہی سابق طالبان وزراء، کابل میں مقیم اقوام متحدہ کے سفارتکار اور ایک مغربی ملک کے سفیر نے بھی دی ہے۔‘‘
افغان جاسوس ادارے کے سابق ڈائریکٹر امر اللہ صالح کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کا افغانستان کی تباہی میں نمایاں ہاتھ ہے اور انہیں علم ہے کہ طالبان کی قیادت کہاں محفوظ بیٹھی ہے۔
افغانستان پر 2001ء میں امریکی حملے اور طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک لگ بھگ 18 سو غیر ملکی فوجی وہاں مارے جاچکے ہیں۔ امریکی حکومت اس جنگ میں اب تک 3 کھرب ڈالر خرچ کرچکی ہے اور اب ہرسال 70 ارب ڈالر اس ضمن میں خرچ کرنا پڑتے ہیں۔
رپورٹ کے مصنف میٹ والڈمن کا خیال ہے کہ پاکستان کے اس مبینہ ڈبل گیم سے متعلق امریکی حکومت اور عوام میں آگہی سے اس خطے پر دوررس سیاسی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستانی حکومت کے رویے میں تبدیلی کے بغیر مغربی حکومتوں کے ساتھ ساتھ افغانستان کی حکومت کے لئے بھی شدت پسندوں پر قابو پانے میں مشکلات درپیش رہیں گی۔
رپورٹ : شادی خان سیف / خبر رساں ادارے
ادارت : افسر اعوان