1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ملا برادر کی گرفتاری طالبان کی اخلاقی شکست‘

17 فروری 2010

اس امر میں شکوک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں کہ ملا عبدالغنی برادر کی گرفتاری، طالبان عسکریت پسندوں کے لئے اخلاقی شکست اور پاکستانی اور امریکیوں کی ایک بڑی کامیابی ہے۔

https://p.dw.com/p/M3jR
ملا عبدالغنی برادر طالبان لیڈر ملا عمر کے قریبی ترین ساتھی ہیںتصویر: AP

واشنگٹن حکومت طالبان لیڈرملا عبدالغنی برادر کی گرفتاری کی تصدیق کر چکی ہے۔ ملا برادر کا شمار افغان طالبان کے اعلی ترین کمانڈروں میں ہوتا ہے۔ پاکستانی اورامریکی خفیہ اداروں کے ایک مشترکہ آپریشن میں یہ گرفتاری عمل میں آئی۔ طالبان کی جانب سے ابھی تک اس خبر کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ عبدالغنی برادر کی مبینہ گرفتاری پرڈوئچے ویلے کے سعید موسی سمیمی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ طالبان کمانڈر ملا برادر کی گرفتاری پاکستانی اور امریکی خفیہ اداروں کی ایک بڑی کامیابی ہے۔

اس گرفتاری کے پس منظر کے بارے میں مختلف نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک طرف امریکی حکام پر افغان مشن کے حوالے سے کامیابی کا دباؤ ہے۔ تو دوسری جانب’ آئی ایس آئی‘ کے طالبان کے چند مخصوص رہنماؤں کے ساتھ خفیہ روابط ہیں۔ پاکستان کی طاقت ورخفیہ ایجنسی منفرد انداز سے کام کرتی ہے۔ اس کوشش رہتی ہے کہ وہ طالبان عسکریت پسندوں کو اپنے اثر رسوخ سے باہر نہ نکلنے دے۔ اسی وجہ سے آئی ایس آئی اپنی کارروائیوں میں ایک خاص حکمت عملی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ صرف وہی طالبان قربانی کا بکرا بنتے ہیں، جن کی وفاداری ’آئی ایس آئی‘ کے لئے سوالیہ نشان ہوتی ہے۔ ملا عبدالغنی برادر جیسے لیڈروں کو گرفتار کر کے پاکستانی خفیہ ایجنسی ایک تیر سے دو شکار کرتی ہے۔

ملا برادر کا موقف تھا کہ غیر ملکی افواج کے افغانستان سے مکمل انخلاء تک کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں کئے جا سکتے۔ ان کی گرفتاری میں پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ کیونکہ حال ہی میں ریاض انتظامیہ نے کابل حکومت اور طالبان کے مابین ثالث کا کردار ادا کرنے کی حامی بھری تھی۔

ملا برادر کا شمار ہمیشہ ہی سے افغان طالبان کے اہم لیڈرں میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق افغان صوبے قندھار سے ہے، جو طالبان کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ وہ سخت مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت اچھے خطیب بھی ہیں۔ مُلا برادر سابق طالبان حکومت میں بطورنائب وزیر دفاع بھی رہ چکے ہیں۔ اس دوران انہوں نے اپنے تجربے کی بناء پرعسکریت پسندوں کی جنگی تربیت بھی کی۔ اس کے علاوہ نوے کے اواخر میں انہی کی سرپرستی میں افغانستان میں ایک آپریشن کیا گیا تھا۔ اس آپریشن میں ہزاروں کی تعداد میں قبائلیوں کو یا تو ہلاک کر دیا گیا یا پھر وہ اپنے آبائی علاقوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

اس امرمیں شکوک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں کہ ملا عبدالغنی برادر کی گرفتاری، طالبان عسکریت پسندوں کے لئے اخلاقی شکست اور پاکستانی اور امریکیوں کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ دوسری جانب افغانستان میں جاری فوجی آپریشن میں کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آ رہی ہے۔ کیونکہ طالبان کے کمانڈرز اپنی مخصوص غیر مرکزیت کی حامل حکمت عملی کے ساتھ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تحریر: سعید موسی سمیمی

ترجمعہ: عدنان اسحاق

ادارت: کشور مصطفی