1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وائرس اور عقیدہ، بیان کچھ عمل کچھ

22 اپریل 2020

مختلف مسلم ممالک میں کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں بیانات اور اقدامات میں ایک واضح فرق ہے۔ بیانات میں مذہبی عنصر حاوی ہے، مگر اقدامات عمومی طور بہت عملی نوعیت کے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3bFN8
Covid-19 Iran Krankenhaus in Shoppingcenter
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Fouladi

مسلم اکثریتی ممالک میں ہزار ہا افراد کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماری سے متاثر ہوئے ہیں۔ صرف ایران میں 76 ہزار سے زائد افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں، جب کہ یہاں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی پانچ ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔

پاکستان میں بھی اب تک ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے اور ہلاکتوں کی تعداد دوسو کے قریب ہے۔ اسی طرح سعودی عرب سمیت دیگر مسلم اکثریتی ممالک میں درجنوں اموات کی وجہ یہ عالمی وبا ہے اور اسی تناظر میں مختلف ممالک نے لاک ڈاؤن نافذ کر رکھا ہے اور سماجی فاصلے پر زور دیا جا رہا ہے۔

ایران اب بھی کورونا وائرس سے دس سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ رواں ہفتے ایرانی پارلیمانی کی سائنسی سروس کی جانب سے انتباہ نے عام افراد میں موجود تذبذب میں مزید اضافہ کیا۔

یہ بھی پڑھیے: ایران میں بحث: ’کورونا وائرس کا مقابلہ مذہب سے کریں یا سائنس سے؟‘

ایرانی سائنسی سروس کا کہنا تھا، ''اگر قرنطینہ اقدامات پر عمل درآمد نہیں ہوتا، تو ایران کی مجموعی آبادی کا 75 فیصد کورونا وائرس کا شکار ہو سکتا ہے، جب کہ ہلاکتوں کی تعداد بھی تیس ہزار تک ہو سکتی ہے۔ تاہم اگر آئسولیشن نے اقدامات پر عمل درآمد کیا گیا، تو ملک میں کورونا وائرس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کو چھ ہزار تک محدود کیا جا سکتا ہے۔‘‘

ایران میں حکومتی اور عوامی سطح پر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے اب تک سائنس سے مدد لی گئی ہے، تاہم ابتدا میں مذہبی عنصر بھی غالب رہا۔  22 مارچ کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اپنے ایک خطاب میں کہا تھا کہ یہ وبا انسانوں کے دشمنوں نہیں اور شیطان روحوں کی وجہ سے آئی ہے۔

وبا کے خلاف اقدامات

ان بیانات کے باوجود ایران میں حکومتی اقدامات زیادہ تر عملی اور سائنسی نکات کو سامنے رکھ کر کیے گئے۔ مگر یہ اقدامات اٹھاتے ہوئے لوگوں کے مذہبی جذبات پر کسی طور توجہ نہیں دی گئی۔

مارچ کی سولہ تاریخ کو ایرانی حکام نے اعلان کیا کہ وہ مشہد میں قائم اہل تشیع کے آٹھویں امام امام رضا کا مزار بند کر رہے ہیں اور ساتھ ہی قم میں فاطمہ بنت موسیٰ کا مزار بھی بند کر دیا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ ایران میں قم ہی میں سب سے پہلے کورونا وائرس کے مریض سامنے آئے تھے۔ اب بھی کورونا کے سب سے زیادہ متاثرہ مریض اسی شہر میں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستانی مسجدوں میں ہی عبادت کیوں کرنا چاہتے ہیں؟

اس حکومت اعلان کے کچھ ہی دیر بعد مشتعل ہجوم نے دھاوا بول دیا اور مزار کے گیٹ توڑ کے اندر داخل ہو گئے۔ اس دھاوے کی ویڈیوز چند ہی منٹوں میں سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں، تاہم عام افراد کی جانب سے ان مذہبی جنونیوں پر تنقید دیکھنے میں آئی۔

پاکستان میں بھی سخت اقدامات

پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں ایک بڑی تعداد ایران سے وطن واپس آنے والے زائرین اور ملک میں تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔

ایسے میں ایک طرف مختلف صوبوں میں لاک ڈاؤن کے دوران مساجد میں نمازیوں کی تعداد محدود کرنے کے اقدامات سامنے آئے بلکہ ساتھ ہی مذہبی رہنماؤں، حکومتی عہدیداروں اور سماجی کارکنوں کے درمیان ایک مسلسل بحث بھی دکھائی دی گئی، جس میں ایک طرف مذہبی بیانیے نمایاں رہا، تو دوسری جانب سائنسی نکتہ ہائے نگاہ کے ذریعے اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے پر زور دیا گیا۔

صوبہ سندھ میں تو جمعے کے روز دوپہر بارہ بجے سے سہ پہر تین بجے تک عملی طور پر کرفیو نافذ کیا جا رہا ہے، تاکہ لوگوں کو نماز جمعہ کے اجتماع سے روکا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیے: کورونا کا کوئی مذہب نہیں 

اس وقت بھی رمضان میں تراویح کے معاملے پر سخت سماجی بحث دیکھی جا رہی ہے۔ پاکستانی میں چند روز قبل صدارتی دفتر کی جانب سے جمعے کی نماز کی تصاویر جاری کی گئیں، جن میں صدر مملکت عارف علوی محدود افراد اور سماجی فاصلے قائم رکھتے ہوئے باجماعت نماز ادا کرتے نظر آئے۔

پاکستان کے مذہبی حلقے ایک طرف تو اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس وبا سے بچاؤ کے لیے سماجی فاصلہ قائم رکھنے کی ضرورت ہے، تاہم دوسری جانب ان کا یہ اعتراض ہے کہ دیگر شعبوں میں حکومت پرزور انداز سے سماجی فاصلے کے نفاذ اور قیام کی کوشش کے بجائے زیادہ توانائی مساجد اور مذہبی اجتماعات پر خرچ کر رہی ہے۔

کیرسٹن کنِپ، ع ت / ع ب

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں