1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لولا نے تیسری مرتبہ برازیل کے صدر کا حلف اٹھا لیا

2 جنوری 2023

بائیں بازو کے رہنما لولا ڈی سلوا نے کہا کہ دائیں بازو کے ان کے پیشرو نے اپنے دور میں برازیل کو'کھنڈر' بنا دیا۔ انہوں نے کووڈ انیس کی وبا سے نمٹنے میں مبنیہ طور پر ناکام رہنے پر بولسونارو حکومت پر "نسل کشی"کا الزام لگایا۔

https://p.dw.com/p/4Lcut
Brasilien I Vereidigung Luiz Inacio Lula da Silva
تصویر: EVARISTO SA/AFP

 

لوئز اناسیو لولا ڈی سلوا  نے اتوار کے روز صدر کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ اس سے قبل وہ سن 2003 میں برازیل کے صدر منتخب ہوئے اور  سن 2020 تک اس عہدے پر فائز رہے۔

ستتر سالہ لولا ڈی سلوا نے اکتوبر میں سخت مقابلے کے دوران دائیں بازو کے صدر جیئر بولسونارو کو معمولی فرق سے شکست دی تھی۔

لولا نے حلف برداری کے بعد کیا کہا؟

دارالحکومت برازیلیا میں صدر کے عہدے کا حلف لینے کے بعد انہوں نے "آئین کو برقرار رکھنے، دفاع کرنے اور اس کی پابندی کرنے" کا عہد کیا اور 215 ملین آبادی والے ملک کے 33 ملین افراد کو بھوک سے بچانے اور تقریباً نصف یعنی 100 ملین کو غربت سے نکالنے کا وعدہ کیا۔

لولا نے اپنے پیشرو بولسونارو کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ برازیل کو دوبار اس"کھنڈر"سے از سرنو تعمیر کریں گے، جو سابقہ حکومت چھوڑ کر جارہی ہے۔

برازیل صدارتی انتخابات: لولا اور بولسونارو میں براہ راست مقابلہ

انہوں نے کہا، "میں آج یہ ذمہ داری لیتا ہوں کہ برازیلی عوام کے ساتھ مل کر اس کھنڈر سے ملک کی تعمیر نو کروں گا اور اسے ہر ایک کے لیے ان کا ملک بناوں گا۔"

لولا نے بولسونارو انتظامیہ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ملک کی مالی حالت کو تباہ حال کرکے رکھ دیا۔  انہوں نے کہا، "انہوں (سابقہ حکومت) نے وزارت صحت کے اثاثوں کو خالی کردیا۔ انہوں نے تعلیم، ثقافت، سائنس، ٹیکنالوجی کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ انہوں نے ماحولیات کے تحفظ کو تباہ کر دیا۔ انہوں نے اسکولوں میں کھانے، ٹیکہ کاری اور عوامی حفاظت کے لیے کوئی وسائل باقی نہیں چھوڑے۔"

انہوں نے بولسونارو حکومت پر "نسل کشی" کا الزام لگایا۔ لولا کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت کووڈ انیس کی وبا سے ٹھیک سے نمٹنے میں ناکام رہی جس کے سبب 680000  برازیلی ہلاک ہو گئے۔

جرمن صدر فرانک والٹراسٹائن مائر بھی حلف برداری کی تقریب میں شرتک ہوئے
جرمن صدر فرانک والٹراسٹائن مائر بھی حلف برداری کی تقریب میں شرتک ہوئےتصویر: Jens Büttner/dpa/picture alliance

بولسونارو حلف برداری تقریب سے غیرحاضر

لوئز اناسیو لولا ڈی سلوا کی حلف برداری کی تقریب میں 55 ملکوں کے مندوبین موجود تھے۔ ان میں اسپین کے شاہ فلیپ چہارم  اور ارجینٹینا، بولویا، چلی، کولمبیا، پیراگوے، اروگوے اور پرتگال کے صدور شامل ہیں۔

جرمن صدر فرانک والٹراسٹائن مائر بھی حلف برداری کی تقریب میں شرتک ہوئے تاہم رخصت پذیر صدر بولسونارو غیر حاضر رہے۔ وہ جمعے کے روز ہی فلوریڈا روانہ ہوگئے تھے۔

حلف برداری کی تقریب کے بعد لولا ایک کھلی رولس رائس کار میں اپنے 30000 حامیوں کے ہجوم کے ساتھ صدارتی پٹکا پہننے کے لیے پلانالٹو صدارتی محل پہنچے۔

برازیل: لولا ڈی سلوا کا دور ختم، ڈلما روسیف نئی صدر

بولسونارو نے اپنا روایتی صدارتی پٹکا اپنے جانشین کے حوالے کرنے سے مبینہ طور پر انکار کردیا تھا جس کے بعد کوڑے جمع کرنے والی ایک سیاہ فام خاتون الین سوسا نے انہیں پٹکا پیش کیا۔

اس موقع پر صدارتی محل کے ارد گرد لاکھوں افراد جمع تھے۔

 خبر رساں ایجنسی روئٹرزکے مطابق سابق صدر جیئر بولسونارو کے حامیوں کی جانب سے تشدد کی دھمکیوں کے پیش نظر برازیل کے دارالحکومت برازیلیا میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔

 لولا ایک کھلی رولس رائس کار میں اپنے 30000 حامیوں کے ہجوم کے ساتھ  صدارتی محل پہنچے
لولا ایک کھلی رولس رائس کار میں اپنے 30000 حامیوں کے ہجوم کے ساتھ صدارتی محل پہنچےتصویر: Ueslei Marcelino/REUTERS

لولا کے سامنے چیلنجز

لولا نے بولسونارو کو دو فیصد سے بھی کم ووٹوں کے فرق سے ہرایا تھا۔ انتہائی دائیں بازو کے رہنما بولسونارو نے اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ملک کے انتخابی نظام پر شبہات کے اظہار کیے تھے۔

برازیل کے صدر بولسونارو نے انتخابی نتائج کو چیلنج کر دیا

بولسونارو کے انتہائی سخت گیر بعض حامیوں نے فوجی بغاوت کا مطالبہ بھی کیا تھا تاکہ انتہائی دائیں بازو کے رہنما اقتدار پر برقرار رہ سکیں۔

خیال رہے کہ لولا ڈی سلوا جب دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ان کی جماعت ورکرز پارٹی پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے تھے اور انہیں بھی 19ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا تاہم برازیل کی سپریم کورٹ نے بعد میں انہیں بری کردیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ برازیل کی معیشت مشکل دور سے گزر رہی ہے لولاڈی سلوا سے لوگوں نے ڈھیر ساری توقعات وابستہ کر لی ہیں۔ انہیں برازیل میں صورت حال کو بہتر کرنے کا مشکل چیلنج درپیش ہوگا اور ایسے نتائج فراہم کرنے ہوں گے جن سے شہریوں کا معیار زندگی بہتر ہوسکے۔

 ج ا/ ص ز (اے ایف پی، اے پی، ای ایف ای، روئٹرز)