1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبرازیل

برازیل: سابق صدر لولا ڈی سلوا صدارتی انتخابات میں کامیاب

31 اکتوبر 2022

سابق صدر لولا ڈی سلوا نے انتہائی دائیں بازو کے موجودہ صدر بولسونارو کو شکست دے کر ایک بار پھر سے عہدہ صدارت حاصل کر لیا۔ تلخ انتخابی مہم کے بعد انہوں نے عوام سے 'امن اور اتحاد' کی اپیل کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4IrsP
Wahlen in Brasilien
تصویر: Lincon Zarbietti/dpa/picture alliance

برازیل کے انتخابی کمیشن 'سپریم الیکٹورل کورٹ' (ٹی ایس ای) کے مطابق بائیں بازو کے تجربہ کار سیاستدان لوئیز اناسیو لولا ڈی سلوا  نے اتوار کے روز برازیل کے صدارتی انتخابات میں 50.9 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے ساتھ ہی انتہائی دائیں بازو کے برسراقتدار جیئر بولسونارو کو شکست دے دی۔

تبصرہ: برازیل کی آزادی کے دو سو سال - ایک ٹوٹے ہوئے وعدے کی کہانی

بولسونارو برازیل کے ایسے پہلے صدر ہیں، جو سن 1985 میں ملک میں جمہوریت کی واپسی کے بعد سے دوبارہ انتخاب میں کامیاب نہیں ہو پائے، حالانکہ ابھی تک انہوں نے اپنی شکست تسلیم نہیں کی ہے۔

یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا بولسونارو ان انتخابی نتائج کو قبول کریں گے یا نہیں، کیونکہ کہ انہوں نے پہلے ہی اس طرح کی باتیں کہی تھیں کہ اگر وہ الیکشن ہار گئے تو وہ دھوکہ دہی اور فراڈ ہونے کا دعویٰ کریں گے۔

فتح کے بعد لولا نے کیا کہا؟

لولا ڈی سلوا نے اپنی انتخابی کامیابی کے بعد ساؤ پاؤلو میں تقریر کرتے ہوئے کہا، ''آج واحد فاتح برازیل کی عوام ہے۔ یہ میری یا ورکرز پارٹی کی جیت نہیں ہے، ان پارٹیوں کی نہیں ہے جنہوں نے انتخابی مہم میں میرا ساتھ دیا، یہ تو ایک جمہوری تحریک کی فتح ہے، جو سیاسی اختلافات، ذاتی مفادات اور نظریات سے بالاتر ہو کر ایک ساتھ جمع ہوئی تاکہ جمہوریت کی فتح ہو سکے۔''

برازیل کے صدارتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ، ووٹنگ جاری

لولا نے تلخ انتخابی مہم کے بعد ''امن اور اتحاد'' پر زور دیا۔ انہوں نے عہد کیا کہ وہ بھوک سے نپٹیں گے اور اپنے عہدے پر رہنے کے دوران ایمیزون کے جنگلات کو محفوظ رکھیں گے۔

انہوں نے کہا، ''آج ہم دنیا کو بتا رہے ہیں کہ برازیل واپس آ گیا ہے۔'' انہوں نے مزید کہا کہ ملک، ''موسمیاتی بحران، خاص طور پر ایمیزون کے خلاف جنگ میں اپنی جگہ واپس لینے کے لیے تیار ہے۔''

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ وہ تجارتی معاہدوں کے بجائے ایک منصفانہ عالمی تجارت کی کوشش کریں گے، نہ کہ وہ جو ''ہمارے ملک کو خام مال کے ابدی برآمد کنندہ ہونے کی حیثیت سے اس کی سبکی کا سبب بنے۔''

امریکی صدر جو بائیڈن، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکراں اور دیگر عالمی رہنماؤں نے لولا کی جیت کے اعلان کے بعد انہیں مبارکباد پیش کی ہے۔

Wahlen in Brasilien
سابق صدر لولا نے سیاست میں آنے سے پہلے یونین لیڈر کے طور پر کا کیا تھا۔ سن 2003 سے 2010 تک برازیل کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے کافی مقبولیت حاصل کی تھیتصویر: Lincon Zarbietti/dpa/picture alliance

لولا کی سیاسی واپسی

سابق صدر لولا نے سیاست میں آنے سے پہلے یونین لیڈر کے طور پر کا کیا تھا۔ سن 2003 سے 2010 تک برازیل کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے کافی مقبولیت حاصل کی تھی اور جب بطور صدر انہیں 83 فیصد کی مقبولیت حاصل تھی، انہوں نے عہدہ چھوڑ دیا تھا۔

ان کی اس مقبولیت کی بڑی وجہ ان کے وہ سماجی پروگرام تھے، جو انہوں نے غریب خاندانوں کی مدد کے لیے متعارف کروائے تھے۔ اس کے تحت غریب عوام کو مالی اعانت کے ساتھ ہی اجناس فراہم کی جاتی تھی جس سے معاشی طور پر کمزور طبقے کو استحکام ملا تھا۔

جولائی سن 2017 میں بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے متعدد الزامات کے تحت لولا کو 10 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی اور اس تناظر میں حالیہ انتخابات میں ان کی کامیابی ایک بڑی سیاسی واپسی کی نمائندگی کرتی ہے۔ قید کے سبب ہی انہیں بولسونارو کے خلاف سن 2018 کے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا۔

لولا کو سن 2019 میں اس وقت نظر بندی سے رہا کیا گیا، جب ملکی سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ انہیں مناسب عدالتی کارروائی کا موقع نہیں دیا گیا۔

چونکہ موجودہ صدر بولسنارو نے ایوینجلیکل عیسائیوں سے اپیل کی تھی اس لیے لولا کی موجودہ مہم نے پچھلی مہموں کے مقابلے میں زیادہ مذہبی رخ اختیار کر لیا تھا۔ ملک میں ایوینجلیکل عیسائی ووٹروں کی تعداد تقریباً 30 فیصد ہے۔

منقسم ووٹر

پولرائزیشن کے سبب انتخابات میں تناؤ کے ماحول میں ووٹنگ ہوئی اور مہم کے دوران  رائے دہندگان کو دبانے کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔ عوام نے ابتدائی طور پر دو اکتوبر کو اپنا صدر منتخب کرنے کے لیے ووٹ کیا تھا۔ اسی کے ساتھ ہی وفاقی سینیٹ کی ایک تہائی اور 513 مضبوط چیمبر آف ڈپٹیز کے تمام ممبران کے ساتھ ہی 27 گورنرز اور ریاستی مقننہ کے لیے بھی پولنگ ہوئی تھی۔

لیکن انتخابات میں صدارتی مقابلے کا ہی غلبہ تھا اور پہلی پولنگ میں کسی بھی صدارتی امید وار کو مطلوب پچاس فیصد ووٹ نہیں حاصل ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے بولسونارو اور ان کے حریف لولا کے درمیان براہ راست مقابلے کے فیصلہ ہوا، جس کے نتائج اب سب کے سامنے ہیں۔

لولا نے پہلے راؤنڈ میں معمولی برتری کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی لیکن بولسونارو کی کارکردگی بھی حیرت انگیز طور پر اچھی رہی تھی اور تمام اندازوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے 43 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ لولا کو 48 فیصد ووٹ ملے تھے، جبکہ پول جائزے کے مطابق بولسونارو 21 فیصد ووٹوں سے پیچھے تھے۔

عام انتخابات ایک ایسے وقت ہوئے جب برازیل کورونا وائرس کی وبا کے معاشی اثرات سے دوچار ہے، اب یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں ملک کی معیشت مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے روئٹرز)

برازیل میں کیوں جنگلات کو لگا دی جاتی ہے آگ ؟