1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’رحم نہیں حق چاہیے‘، قوت سماعت سے محروم ڈاکٹر مہوش شریف

29 جنوری 2023

ڈاکٹر مہوش شریف بچپن سے قوت سماعت کی کمی کا شکار ہیں اور اب تک 80 فیصد سے زائد سماعت کھو چکی ہیں۔ نا مساعد حالات اور معاشرتی رویوں کے باوجود یہ با ہمت ڈاکٹر فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال کوئٹہ میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4MjVg
Mehwish Shareef | Ärztin aus Belutschistan
تصویر: Privat

 

ڈاکٹر  مہوش شریف معاشرتی رویوں اور انتہائی مشکل حالات کے باوجود فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال کوئٹہ میں اپنی پیشہ وارانہ خدمات سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ خصوصی افراد کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر مہوش نے اپنی کہانی کچھ یوں سنائی،''میں نے بولان میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس میں داخلہ کے لیے دو سیٹوں پر اپلائی کیا تھا۔ ایک سیٹ خصوصی افراد کے لیے مختص تھی جبکہ ساتھ میں نے میرٹ والی سیٹ پر بھی اپلائی کیا تھا۔ اس وقت میری حیرت اورخوشی کی انتہاء تھی جب میرا نام دونوں سیٹوں کے لیے نامزد ہوا۔   یہ میری زندگی تبدیل کر دینے والا دن تھا۔‘‘

 ڈاکٹر مہوش شریف  80  فیصد سے زائد قوت سماعت سے محروم ہیں۔ ان کا تعلق کوئٹہ کے ایک متوسط خاندان سے ہے۔ ان کے دو بڑے بھائی بھی قوت سماعت  کی کمی کا شکار ہیں۔ مگر ان بہن بھائیوں نے ایک  جسمانی کمی کو اپنی خوشیوں اور کامیابیوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا جس میں ان کے باہمت والدین کے کردار کو  کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

 پختہ عزم اور بلند حوصلہ رکھنے والی ڈاکٹر مہوش شریف نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کی خواتین کے لیے ایک بے نظیر مثال ہیں۔

مس وہیل چیئر ورلڈ کا پہلا مقابلہ بیلاروس کی حسینہ نے جیت لیا

ڈاکٹر بننے کا شوق کیسے ہوا؟

ڈاکٹر مہوش شریف نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بچپن سے سماعت کی  کمی کا شکار ہیں اور آلہ سماعت استعمال کرتی  ہیں۔ اسکول اور  بعد ازاں کالج میں انہیں زیادہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ ان کے ایک چچا ڈاکٹر ہیں جن سے متاثر ہو کر انہوں نے ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا اور اللہ پاک کے کرم سے بولان میڈیکل کالج میں ان کا داخلہ بھی با آسانی ہو گیا تھا۔

 ان کے مطابق  دنیا بھر میں کئی ایسی مشہور شخصیات  گزری  ہیں جنہوں نے معذوری کے باوجود میڈیکل کے شعبے میں کارنامے سرانجام  دیے جن سے انہیں موٹیویشن یعنی تحریک ملتی تھی۔

Mehwish Shareef | Ärztin aus Belutschistan
2020ء میں معذور افراد کے عالمی دن کے موقع پر کوئٹہ میں منعقدہ تقریبتصویر: Privat

میڈیکل کی تعلیم کے دوران کن مسائل کا سامنا رہا ؟

  ڈاکٹر مہوش شریف نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بولان میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کے دوران پیش آنے والے واقعات ان کے لیے کسی ڈراؤنے خواب کی طرح ہیں۔ اساتذہ کا رویہ انتہائی تکلیف دہ اور انسلٹنگ ہوا کرتا تھا۔  دوران لیکچر اگر وہ ا ونچا بولنے یا آگے سیٹ پر بیٹھنے  کی اجازت مانگتیں تو اساتذہ ان کا یہ کہہ کر مذاق اڑاتے کہ وہ اپنا نام ڈاکٹر مہوش کی بجائے ''ڈس ایبل مہوش‘‘ رکھ لیں۔

’معذوروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے والا ‘ شفیق الرحمان

 ڈاکٹر مہوش کے مطابق انہیں امتحانات  کے دوران بہت زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پیپرز سے پہلے آلہ سماعت استعمال کرنے کی خصوصی اجازت لینا پڑتی تھی۔ اس کے باوجود انہیں بار بار چیک کیا جاتا کہ کہیں وہ آلہ سماعت کی آڑ میں ہیرنگ بڈز استعمال کر کے نقل تو نہیں کرتیں۔

 وہ بتاتی ہیں کہ ایم بی بی ایس فائنل ایئر کے  سرجری کے زبانی  امتحان کے لیے ان کے پاس آلہ سماعت کے استعمال کا خصوصی لیٹر تھا اور انہوں نے  سب سوالات کے جواب بھی درست دیے تھے۔ مگر  انہیں یہ کہہ کر فیل کر دیا گیا کہ وہ بلکل صحیح سن سکتی ہیں اور لیٹر جعلی طریقے سے بنوایا گیا ہے۔

انتہائی تکلیف دہ واقعات سے گزرنے کے بعد دوبارہ کیسے ہمت کرتی  تھیں؟

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر مہوش شریف نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ایم بی بی ایس کی ابتدا ہی سے ان کے اساتذہ کا مجموعی رویہ یہ تھا کہ چونکہ وہ صحیح سن نہیں  سکتیں تو میڈیکل کا پیشہ ان کے لیے موزوں نہیں ہے۔ مگر انہوں نے ان رویوں کو چیلنج کے طور پر لیا کہ ان کا  داخلہ  جب میرٹ سیٹ پر ہوا ہے تو وہ کسی سے کمتر نہیں ہیں اور وہ اب یہاں سے ڈاکٹر بن کر ہی نکلیں گی۔

Mehwish Shareef | Ärztin aus Belutschistan
ڈاکٹر فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال کوئٹہ میں خدمات سر انجام دینے والی ڈاکٹر فاطمہ مہوشتصویر: Privat

وہ بتاتی ہیں کہ اس طرح کے تکلیف دہ واقعات کا سامنا  کر نے کے بعد ابتدا میں انہیں 'انگزائٹی‘  کے دورے پڑتے تھے اور وہ خود کو کمرے میں بند کر لیتی تھیں۔ مگر پھر گھر والوں، خصوصاً بڑے بھائی  اور والدہ  کے تعاون اور ماہر نفسیات سے رجوع کرنے پر ان کے احساس ِ کمتری میں کمی آنے لگی۔ ان کے بقول ،''اب بھی معاشرتی رویوں کے باعث جب میں ہمت ہارنے لگتی ہیں تو اپنے آپ کوخود ہی سے موٹیویٹ کرتی ہیں۔‘‘

خیبر پختونخواہ میں پلاسٹک سرجری کے ذریعے معذوروں کا علاج

 

پریکٹس کے دوران کن مسائل کا سامنا ہے؟

ڈاکٹر مہوش شریف نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ میڈیکل کی تعلیم عام طلباء کے لیے بھی بہت چیلنجنگ ہوتی ہے مگر ان کے مسائل عام طلباء سے سو گنا زیادہ تھے۔ اس دوران کے گھر والوں نے بھرپور تعاون کیا جس کی بدولت وہ ایم بی بی ایس مکمل کرنے کے قابل ہوئیں۔ 

 ڈاکٹر مہوش پبلک سروس کمیشن  کا امتحان پاس کرنے کے بعد فی الوقت فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال کوئٹہ میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ ان کے مطابق ہسپتال کے وارڈ میں اکثر انہیں سننے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر ہسپتال اسٹاف اور مریض ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے ہیں۔

پاکستان میں ڈیمینشیا کے علاج کے لیے جدید ورچوئل ریئیلٹی ٹیکنالوجی کا استعمال

Mehwish Shareef | Ärztin aus Belutschistan
ڈاکٹر مہوش شریف 80 فیصد سے زائد قوت سماعت سے محروم ہیںتصویر: Privat

خصوصی افراد کے حقوق کے  لئے کیا کرنا چاہتی ہیں؟

ڈاکٹر مہوش شریف نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جدید ٹیکالوجیز دنیا بھر میں خصوصی افراد کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لئے استعمال کی جارہی ہیں۔ مگر ہمارے ہاں سسٹم کا حال یہ ہے کہ میڈیکل کے سینیئر اساتذہ آلہ سماعت اور ہینڈز فری میں تمیز کرنے سے قاصر ہیں۔ جس کے باعث انہیں فائنل ایئر میں سرجری کا امتحان دو مرتبہ دینا پڑا۔

 ڈاکٹر مہوش بتاتی ہیں کہ وہ اسپیشلائزیشن کے لیے بھی دو مرتبہ امتحان دے چکی ہیں دونوں مرتبہ یہ کہہ کر ان کا آلہ سماعت اتروا دیا گیا کہ وہ اس کے بغیر بالکل صحیح سن سکتی ہیں۔ حالانکہ ان کی میڈیکل رپورٹس سے ہی ظاہر ہے کہ وہ  80 فیصد سے زائد سماعت کھو چکی ہیں اور آلہ سماعت کے بغیر سننا ان کے لیے ممکن نہیں۔

پاکستانی بچوں میں اسمارٹ فون کی لت پر طبی ماہرین کی تشویش

ان کے مطابق دیگر معذوریوں کے شکار افراد کو بھی ٹیکنیکل تعلیم میں بے پناہ مسائل کا سامناہے۔ ''اصل مسئلہ ہمارا فرسودہ تعلیمی نظام ہے جسے  جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ ڈاکٹر مہوش اس حوالے سے مختلف فورمز پر خاصی سرگرم ہیں اور کہتی ہیں ،''ہم پر رحم مت کھائیں ۔ یہ ہمارا جائز حق ہے،  ہمیں ہمارا حق

 دیں۔‘‘