1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخواہ میں پلاسٹک سرجری کے ذریعے معذوروں کا علاج

فرید اللہ خان پشاور2 دسمبر 2013

اس مقصد کیلئے جرمن حکومت کے مالی تعاون سے پشاور میں پلاسٹک سرجری کے شعبے کے منصوبے کو وسعت دی جارہی ہے

https://p.dw.com/p/1AQWN
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقے گذ شتہ ایک عشرے سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں اس دوران بم دھماکوں اورخود کش حملوں میں جہاں ہزاروں لوگ مارے گئے وہاں ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہونے والے اپنے بعض اعضاء سے محروم ہوگئے ہیں ۔ ان افراد کی یہ معذوری انکے مستقل کے لیے پریشانی کاسبب بن رہی ہے تاہم پشاور سمیت صوبے کے دیگر علاقوں کے ہسپتالوں میں پلاسٹک سرجری کے شعبے کو ترقی دیکر ان متاثرہ افراد کو معذوری سے نکالنے کی کوشیش کی جارہی ہے ۔ جس میں کافی حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ اس مقصد کیلئے جرمن حکومت کے مالی تعاون سے پشاور میں پلاسٹک سرجری کے شعبے کے منصوبے کو وسعت دی جارہی ہے ان مراکز میں پاکستان سمیت افغانستان کے مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ وہاں کے ڈاکٹروں اور معاون عملے کو تربیت بھی دی جارہی ہے۔ نئے وارڈز کے قیام پر سات کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت آئے گی۔ پلاسٹک سرجری کے شعبے کو ترقی دینے کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جارہی تھی کیونکہ قبائلی علاقوں میں 2007 ء میں دہشت گردی کے آغاز سے لے کر اب تک 4 ہزار خواتین و بچوں سمیت 8 ہزار سے زائد زخمیوں کو پلاسٹک سرجری کی ضرورت تھی مگر وہ اپنے علاقوں سے نزدیک سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس سے محروم رہے۔ اس دوران پشاور کے تین سب سے بڑے ہسپتالوں میں قریب 11 ہزار مریضوں کو داخل کیا گیا جن میں سے نصف کا تعلق قبائلی علاقوں سے تھا ۔

Bombenanschlag Peshawar Pakistan
دہشت گردانہ حملوں میں زخمی ہونے والے اکثر بعض اعضاء سے محروم ہوجاتے ہیںتصویر: Reuters

سب سے زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہوئے ہیں جنہیں اپنی معذوری کی وجہ سے شدید نفسیاتی صدمے کا سامنا ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخوا کے چھ اضلاع میں برن یونٹ کا قیام بھی عمل میں لایا جارہا ہے جسکے لئے بھی جرمنی نے کے ایف ڈبلیو بنک کے زریعے امداد فراہم کی ہے جب اس سلسلے میں صوبائی وزیر صحت شوکت علی یوسف زئی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ”خیبر پختونخوا میں برن سینٹرز کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جارہی تھی بم دھماکوں اور حادثات میں زخمی ہونیوالوں میں اکثر لوگ سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مرجاتے ہیں جبکہ ایسے معذورلوگ معاشرے پر ایک طرح کا بوجھ بن جاتے ہیں اب ان مراکز کے قیام سے ایسے لوگوں کاعلاج ممکن ہوگا۔انکا مزید کہنا تھا کہ صوبے کے چار اضلاع میں یہ مراکز اگلے سال کام شروع کریں گے جس سے ہزاروں لوگوں کو فائدہ پہنچے گا" ۔ ان مراکز میں صدمے، آتشیں اسلحہ کے زخم اور جلنے کا علاج دستیاب ہو گا۔ لوگوں کو معذوریوں کے خلاف تحفظ فراہم کرکے انہیں اپاہج پن سے بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

Opfer von Säureattentaten in Pakistan
خواتین پر تشدد اُن کے لیے زندگی بھر کا روگ بن سکتا ہےتصویر: AP

جنگ زدہ صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے کئی دیگر منصوبوں پر بھی کام جاری ہے جس میں حال ہی میں حیات آباد میڈیکل کمپلکس میں تپ دق کی تشخیص کیلئے جرمنی کے تعاون سے ایک جدید لیبارٹری کا سنگ بنیاد رکھا گیا ۔ خون کی فراہمی اور تپ دق کی تشخیص کیلئے یہ ایشاء کی بہترین لیبارٹری ہوگی جو اگلے سال مارچ میں کام شروع کرے گی۔ خیبر پختونخواہ کے ٹی بی کنٹرول

پروگرام کے مینجر ڈاکٹر عبید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ”پہلے یہاں ٹی بی کے مریضوں کے ٹسٹ کی سہولت نہیں تھی اسکے ہم نمونے کراچی یا پھر لاہور بھیجتا کرتے تھے لیکن اب اس جدید ٹیکنالوجی کی بدولت پورے صوبے سے نمونے جمع کرواکے ٹسٹ کرسکتے ہیں اب پانچ سو کے قریب ٹسٹ ہوتے ہیں اور اگر جرمن حکومت کا تعاون اسی طرح جاری رہا تو ہم پورے خطے کے عوام کو یہ سہولت فراہم کرسکتے ہیں۔ اُنکا مزید کہنا تھا کہ اب جو سہولیات خیبر پختونخوا کے پاس ہیں وہ کسی اور صوبے کے پاس نہیں ہیں جرمن حکومت وسائل فراہم کررہی ہے جبکہ ہیومن ریسورسز ہمارا اپنا ہے" ۔

پاکستان میں خواتین کے علاج کو بھی بہتر بنایا جا رہا ہے۔ اس ملک میں خواتین طبی دیکھ بھال حاصل کرنے سے اکثر ہچکچاتی ہیں کیونکہ مرد ڈاکٹروں سے علاج کروانے کی راہ میں بہت سی ثقافتی اقدار حائل ہیں۔ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں شعبہ پلاسٹک سرجری کے سربراہ پروفیسر محمد طاہر نے کہا کہ وہ وارڈز کے لیے پیشگی طور پر 10 خواتین کو تربیت دے چکے ہیں اور مزید خواتین کو بھی تربیت دی جارہی ہے تاکہ تشدد سے متاثرہ خواتین کا علاج کیا جا سکے۔