1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ورچوئل ریئیلیٹی سے ڈیمینشیا کا علاج

16 اکتوبر 2022

پاکستان میں ڈیمینشیا کی مرض کے حوالے سے آگاہی بہت کم ہے اور اسے لاعلاج مرض سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر علی جاوید ورچوئل ریئیلٹی ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈیمینشیا کے مریضوں کے علاج پر تحقیق کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4I7hJ
ڈاکٹر علی جاوید کا تعلق لا ہور سے ہے۔تصویر: Dr. Jawaid Ali

ڈیمینشیا کی سب سے عام قسم الزائمر ہے، جس میں متعلقہ فرد کی یادداشت کمزور ہونے سے وہ باہر کی دنیا حتی کے گھر والوں سے بھی دوری کا شکار ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں ڈیمینشیا کے حوالے سے آگاہی بہت کم ہے اور سماجی ٹیبوز کے باعث اس مرض کو لا علاج سمجھا جاتا ہے۔ مگر نیوروسائنسز میں روز افزوں پیش رفت سے اب امید کی کرن نظر آنے لگی ہے۔

ڈاکٹر علی جاوید کی ڈیمینشیا پر تحقیق کیا ہے؟

ڈاکٹر علی جاوید پولینڈ میں برین سٹی سینٹر وارسا کے سربراہ ہیں۔ یہ لیبارٹری نیوروسائنسز میں ٹرانزیشنل ریسرچ پر کام کر تی ہے۔ ڈاکٹر علی جاوید نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہڈیمینشیا پر تحقیق کرتے ہوئے انہوں نے نوٹ کیا کہ مریض کے اپنے قریبی افراد اور باہر دنیا کے ساتھ اس کے روویوں میں تیزی سے تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اس سے نا صرف مریض بلکہ اس سے جڑے تمام افراد کی زندگی پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔

ڈاکٹر جاوید کے مطابق عموما ڈیمینشیا اور الزائمر کو لاعلاج سمجھا جاتا ہے۔ اور اس کے شکار افراد بے رغبتی کا شکار ہو کر وہ مشاغل بھی ترک کر دیتے ہیں، جو کبھی ان کے پسندیدہ ہوتے تھے۔ ڈیمینشیا پر برسوں سے تحقیق کرتے ہوئے انہیں خیال آیا کہ کسی طرح مریضوں کے دماغ کو ری ایکٹو کیا جائے، جس سے انہیں ماضی کی باتیں یاد آنے لگیں۔

Demenzbehandlung durch VR in Pakistan
ڈاکٹر جاوید وارسا میں برین سٹی سینٹر کی سربراہی کر رہی ہیں۔تصویر: Dr. Jawaid Ali

ڈاکٹر جاوید کا کہنا تھا کہ اس سے انہیں تحریک ملی کہ ورچوئل ریئیلٹی کے ذریعے ڈیمینشیا کے شکار افراد کو مصنوعی ماحول فراہم کر کے کچھ عرصے ان کی تربیت کی جائے تو غالب امکان ہے کہ انہیں ماضی کے تجربات یاد آنے لگیں۔ اس طرح ان کے دماغ کے وہ حصے ری ایکٹو ہو سکتے ہیں، جو یادداشت کی کمزوری کا باعث متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق اس تکنیک کو سائنسی اصطلاح میں "انوائرمینٹل این رچمنٹ'' کہا جاتا ہے، جس پر دنیا بھر میں تحقیق ہو رہی ہے مگر پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے۔

ورچوئل ریئیلٹی ٹیکنالوجی کے ذریعے مریضوں کی کس طرح تربیت کی گئی؟

ڈاکٹر علی جاوید نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس تحقیق کے لیے انہوں نے ماڈل اس طرح تیار کیا تھا کہ مریضوں کو چند منتخب کردہ جگہوں کا مصنوعی ماحول دکھایا جائے، جیسے وہ ان مقامات کی سیر کر رہے ہوں۔ اس انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ ڈیمینشیا کے مریض علاج کے دوران ہسپتال یا گھر تک محدود ہو جاتے ہیں اور انہیں کسی دوسری جگہ لے جا کرعلاج کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر جاوید کے مطابق جن تین جگہوں کا انتخاب کیا گیا وہ اہرام مصر، مسجد الحرام اور دیوار چین تھیں۔ اس تحقیق میں لمز یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنسدان ڈاکٹر سلیمان شاہد نے ان کی معاونت کی۔ تحقیقی تجربات میں حصہ لینے والے سات مریضوں کا تعلق بھی لاہور سے تھا، جنہیں چھ ماہ تک نگرانی میں رکھا گیا اور اس دوران ورچوئل ریئیلٹی ہیڈ سیٹ کے ذریعے ان مقامات کی سیر کروائی گئی۔ ان مریضوں کی عمر ساٹھ برس سے زیادہ تھی اور وہ درمیانے درجے کے ڈیمینشیا مرض کا شکار تھے۔

تحقیق کے نتائج کیا بتاتے ہیں؟

ڈاکٹر علی جاوید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ دنیا بھر میں ورچوئل ریئیلٹی ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈیمینشیا کا علاج  ابھی کلینیکل ٹرائل میں ہے اور مختلف ممالک میں اس پر تحقیق جاری ہے۔ اگرچہ ان کے تحقیق کے نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں مگر اس میں ابھی بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چھ ماہ کے ٹرائل علاج میں مریضوں کی ذہنی صحت میں واضح بہتری نوٹ کی گئی۔ موڈ کی بہتری کے ساتھ ان میں سے کئی اپنے پرانے مشاغل میں دلچسپی لینے لگے اور کچھ نے مکہ اور دیگر مقامات پر ماضی میں اپنے سفر کی روداد بھی سنائی۔ ماضی کی باتیں دوہرانے کا مطلب یہ تھا کہ دوران علاج یادداشت سے متعلق دماغ کے حصے ری ایکٹیویٹ ہوئے ہیں۔

کیا الزائمر کا علاج ممکن ہے؟

ڈاکٹر جاوید کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس طرح مصنوعی ماحول میں علاج اگرچہ مہنگا ہے اور عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے مگر ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ نئے اور کم قیمت ہیڈ سیٹ سامنے آرہے ہیں اور علاج  کے لیے بنائے گئے پروگرام میں بھی مسلسل تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔

ڈاکٹر علی جاوید کون ہیں؟

ڈاکٹر علی جاوید کا تعلق لا ہور سے ہے۔ فی الوقت وہ پولینڈ میں مقیم ہیں اور وارسا میں برین سٹی سینٹر کی سربراہی کر رہی ہیں۔ یہ لیبارٹری نیورو سائنسز میں ٹرانزیشنل ریسرچ پر کام کر تی ہے۔ ڈاکٹر جاوید کے والد پاک آرمی میں تھے۔ اس وجہ سے ان کا بچپن مختلف جگہوں پر گزرا۔ وہ بتاتے ہیں کہ بچپن میں وہ ایک نیورولوجیکل بیماری کا شکار تھے اس دور میں اس مرض کا علاج ٹرائل کے مراحل میں تھا اور انہیں تجرباتی علاج سے گزرنا پڑا۔ علاج کے نتائج حیران کن طور پر مثبت رہے اور چند سالوں میں وہ مکمل صحت یاب ہوگئے تھے۔

ڈاکٹر جاوید کے مطابق بچپن سے ہی ان کی شخصیت میں تجسس تھا اور علاج کے دوران ڈاکٹر اور نرسوں سے نیورو سائنسز پر بہت سے سوالات پوچھتے رہتے تھے۔ دس برس کی عمر سے ہی نیورو سائنسز سے ان کا تعارف تھا، جو وقت کے ساتھ پروان چڑھتا گیا اور آج اپنی تحقیق کے باعث ان کا شمار دنیا کے مایہ ناز نیورو سائنٹسٹ میں ہوتا ہے۔

حال ہی ڈاکٹر جاوید کی مزید دو تحقیق نیچر سائنس جرنل میں شائع ہوئی ہیں، جن کے عنوانات یوکرین جنگ کے دوران بچوں اور بڑوں کی ذہنی صحت اور ٹراؤما (صدمے) سے ان پر پڑنے والے منفی اثرات تھے۔

ڈیمینشیا کا مرض انسان کی یادداشت سے متعلق ہے، جو عموما بوڑھے افراد میں نوٹ کیا جاتا ہے۔ عمر کے 80 برس گزارنے کے بعد معمر افراد کی یادداشت متاثر ہونے لگتی ہے۔ انہیں چیزیں، جگہیں، راستے اور لوگوں کے نام وغیرہ یاد رکھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ مرض اگر بڑھ جائے تو مریض کو روز مرہ کے کام کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور ہر وقت ایک مددگار کی ضرورت ہوتی ہے۔