1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شیریں مزاری کی گرفتاری: ہائی کورٹ کا چھان بین کا حکم

22 مئی 2022

پاکستان میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کی سینیئر رہنما اور انسانی حقوق کی سابق وزیر شیریں مزاری کی گرفتاری کی چھان بین کا حکم دے دیا ہے۔ انہیں کل دن کے وقت گرفتار کر کے رات گئے رہا کر دیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/4BhN4
تصویر: Arif Hudaverdi Yaman/AA/picture alliance

شیریں مزاری کی گرفتاری کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تحقیقات کا یہ حکم ہفتہ اکیس مئی کو رات گئے اس خاتون سیاست دان کی بیٹی ایمان مزاری کی طرف سے دائر کردہ درخواست پر سنایا۔ شیریں مزاری کی گرفتاری کی وجہ زمین کے ایک ایسے تنازعے سے متعلق ان کے خلاف الزام بنا، جو تقریباﹰ پچاس سال پرانا ہے۔

چیف جسٹس کا حکام سے استفسار

ایمان مزاری کی درخواست پر فوری سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی دارالحکومت کے حکام سے یہ استفسار بھی کیا کہ انہوں نے صوبہ پنجاب کے ایک ضلع کے پولیس اہلکاروں کو یہ اجازت کس بنیاد پر دی تھی کہ وہ شیریں مزاری کو وفاقی دارالحکومت سے گرفتار کر سکتے ہیں۔

نفرت پھیلانے کو برداشت نہیں کیا جائے گا، شیریں مزاری

شیریں مزاری کو، جو سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں انسانی حقوق کے وزیر رہی ہیں، کل ہفتے کے روز اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ کے قریب سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔

Pakistanische Ministerin für Menschenrechte Shireen Mazari
شیریں مزاری کو ہفتے کو رات گئے رہا کر دیا گیا تھاتصویر: picture alliance/dpa/W. Khan

ان کی گرفتاری کے بعد ان کی بیٹی ایمان مزاری نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا تھا کہ ان کی والدہ کے ساتھ پولیس اہلکاروں نے بدسلوکی کی اور انہیں مبینہ طور پر مارا پیٹا بھی گیا تھا۔

پولیس نے بعد میں تاہم ان کے حراست میں لیے جانے کی تصدیق کر دی تھی مگر ان الزامات کو مسترد کر دیا تھا کہ شیریں مزاری کے ساتھ کوئی بدسلوکی کی گئی تھی یا انہیں مارا پیٹا گیا تھا۔

گرفتاری کی فوری اور شدید مذمت

پاکستان تحریک انصاف کی اس خاتون سیاست دان کی گرفتاری کی فوراﹰ ہی شدید مذمت بھی کی جانے لگی تھی۔ ناقدین خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی طرف سے الزام لگایا گیا تھا کہ یہ گرفتاری موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کے ایما پر کی گئی تھی، جو مبینہ طور پر ایک سیاسی انتقامی کارروائی تھی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں وزیر اطلاعات کے عہدے پر فائز رہنے والے فواد چوہدری نے شیریں مزاری کی گرفتاری کے بعد الزام لگایا تھا کہ اس سابق وزیر کو موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں ملک کی نئی حکومت نے سیاسی طور پر نشانہ بنانے کے لیے گرفتار کیا اور وہ بھی زمین کی ملکیت سے متعلق ایک ایسے الزام میں جو 1972ء میں لگایا گیا تھا۔

وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی طرف سے مداخلت

شیریں مزاری کی گرفتاری کے بعد موجودہ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے بیٹے اور پنجاب کے صوبائی وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے حکام کو حکم دے دیا تھا کہ زیر حراست شیریں مزاری کو رہا کر دیا جائے۔

مزاری کو، جنہیں گرفتاری کے بعد پنجاب منتقل کر دیا گیا تھا، بعد میں ہفتے کی رات واپس اسلام آباد پہنچا دیا گیا اور پھر فوری سماعت کے دوران ہفتے ہی کو رات گئے انہیں عدالت میں بھی پیش کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد انہیں  رہا کر دیا گیا۔

م م / ب ج (ڈی پی اے، اے پی)