1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں انسانی حقوق کی سابق وزیر شیریں مزاری گرفتار

21 مئی 2022

پاکستان میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں انسانی حقوق کی وزیر کے عہدے پر فائز رہنے والی خاتون سیاست دان شیریں مزاری کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انہیں زمین ہتھیانے کے ایک عشروں پرانے الزام میں حراست میں لیا گیا۔

https://p.dw.com/p/4Bg6X
تصویر: picture alliance/dpa/W. Khan

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے ہفتہ 21 مئی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی گزشتہ حکومت میں وفاقی کابینہ کی رکن  شیریں مزاری کو جس الزام کے تحت گرفتار کیا گیا ہے، وہ غیر قانونی طور پر زمین ہتھیانے سے متعلق اور عشروں پرانا ہے۔ شیریں مزاری کی گرفتاری کی ان کی بیٹی ایمان مزاری اور ایک سابق وفاقی وزیر نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مزاری کو اسلام آباد سے حراست میں لیا گیا۔

نفرت پھیلانے کو برداشت نہیں کیا جائے گا، شیریں مزاری

شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا کہ ان کی والدہ اور عمران خان کی سابق حکومت کی وزیر شیریں مزاری کو پولیس نے ان کے گھر کے قریب سے حراست میں لے لیا۔ ایمان مزاری نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ''پولیس کے مرد اہلکاروں نے میری والدہ کو پیٹا اور پھر انہیں ساتھ لے گئے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ انہیں لاہور میں انسداد بدعنوانی کے محکمے کے اہلکاروں نے گرفتار کیا ہے۔‘‘

ایک مقامی ٹیلی وژن سے نشر ہونے والی فوٹیج کے مطابق شیریں مزاری کو پولیس کی وردیوں میں ملبوس خواتین اہلکاروں نے حراست میں لیا۔

پی ٹی آئی کے دور حکومت میں وزیر اطلاعات کے عہدے پر فائز رہنے والے فواد چوہدری نے پاکستانی ٹیلی وژن جیو نیوز کو بتایا کہ مزاری کو اینٹی کرپشن پولیس نے گرفتار کیا اور گرفتاری کے وقت اس خاتون سیاست دان سے بدسلوکی کرنے کے علاوہ انہیں پیٹا بھی گیا۔

پی ٹی آئی کی سینیئر رہنما

شیریں مزاری سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی ایک سینیئر رہنما ہیں۔ فواد چوہدری نے الزام لگایا کہ ان کی گرفتاری کی وجہ بننے والے الزام کے محرکات سیاسی انتقام کا شاخسانہ ہیں اور زمین کے جس تنازعے کی بنیاد پر انہیں حراست میں لیا گیا ہے، اس کا تعلق 1972ء سے ہے۔

شیریں مزاری پاکستانی پارلیمان میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اقتدار میں آنے والی وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت پر اپنے ٹوئٹر پیغامات کے ذریعے شدید تنقید کرتی رہی ہیں۔

انسانی حقوق کی وزیر کہاں ہیں؟

عمران خان اقتدار سے باہر ہو جانے کے بعد سے اب تک ملک کے مختلف شہروں میں جلسوں کی صورت میں ایک ایسی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کے ذریعے وہ موجودہ حکومت کو ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد کے فیصلے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔

مزاری کی گرفتاری پر ملک بھر میں تنقید

شیریں مزاری بعض معاملات میں ملکی فوج پر بھی کھل کر تنقید کرتی رہی ہیں۔ ان کی گرفتاری کی پاکستان بھر میں مذمت کی جا رہی ہے۔ بہت سے حلقے اسے موجودہ حکومت کی طرف سے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو نشانہ بنانے کی سیاسی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

تازہ اطلاعات کے مطابق پولیس نے ٹوئٹر پر شیریں مزاری کی گرفتاری کی تصدیق تو کر دی ہے مگر ان الزامات کی تردید کی ہے کہ ان سے کوئی بدسلوکی کی گئی یا انہیں مارا پیٹا گیا۔

امریکہ نے حملہ کیے بغیر ہی پاکستان کو ’غلام‘ بنا لیا، عمران خان

کئی ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ شیریں مزاری کی گرفتاری موجودہ حکومت کی ایسی کوشش ہے، جس کا مقصد پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اس احتجاجی مارچ میں شرکت سے روکنا ہے، جس کا عمران خان نے اعلان کر رکھا ہے۔

وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کا حکم

پاکستانی میڈیا کے مطابق پنجاب کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے شیریں مزاری کی گرفتاری کا سخت نوٹس لیا ہے۔ محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب کے ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی ہدایت پر شیریں مزاری کی رہائی کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔ آخری اطلاعات ملنے تک پاکستان میں ہفتے کی شام تک شیریں مزاری کو رہا نہیں کیا گیا تھا۔

عمران خان کے خلاف توہین مذہب کے مقدمے پر ناقدین کی تشویش

پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے مزاری کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے سیاسی انتقام کی بو آتی ہے، جو اپنی ہر شکل میں قابل مذمت ہے۔

اسی دوران وزیر اعظم شہباز شریف کی مخلوط حکومت میں شامل ایک اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی  کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے شیریں مزاری کی گرفتاری پر تنقید کرتے ہوئے اسے 'سیاسی جبر کی بد ترین شکل‘ قرار دیا ہے۔

م م / ش ر (ڈی پی اے، اے پی، ٹوئٹر)