1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سپریم کورٹ کی ہدایات: خیر مقدم بھی تنقید بھی

عبدالستار، اسلام آباد
19 مئی 2022

پاکستان میں کئی حلقوں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کا 'ہائی پروفائل‘ مقدمات میں تحقیقات کرنے والے افسروں کا تبادلہ روکنے کا حکم شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کے لیے پریشانی پیدا کرے گا۔

https://p.dw.com/p/4BZv9
Pakistan | Mian Muhammad Shahbaz Sharif
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

واضح رہے کہ آج سپریم کورٹ نے حکام کو نئی تقرری کرنے اور 'اعلی پروفائل‘ مقدمات کی تفتیش میں شامل اہلکاروں کی ٹرانسفر کرنے سے روک دیا۔

یہ ہدایات پانچ ججوں کے بڑے بینچ نے ایک از خود مقدمے کی سماعت کے دوران دیں۔

پاکستانی وزیر اعظم اور حکومتی اتحاد میں شامل کئی اہم شخصیات کو بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے مقدمات کا سامنا ہے۔

کئی قانونی ماہرین اور نقادوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، جب کہ ن لیگ کے رہنما اس پر خوش نہیں ہیں۔ عدالت نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل ، نیب کے چیئرمین اور داخلہ سکریٹری کو بھی نوٹس جاری کیے۔

تمام صوبائی پراسیکیوٹر جنرلز اور ایف آئی اے کے قانونی ڈائریکٹر کو بھی نوٹس جاری کیے گئے تھے۔

حکومت نے مبینہ طور پر ایف آئی اے میں کچھ عہدیداروں کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ کی تھی جس سے یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمے پر اثر انداز ہونے کے لیے یہ کارروائی کی گئی تھی۔

کچھ میڈیا رپورٹس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ عدالت میں منی لانڈرنگ کے مقدمے پیش نہ ہو۔

حکومت نے اس طرح کی اطلاعات کی تردید کی لیکن عمران خان اور پی ٹی آئی نے زور دے کر کہا کہ حکومت ایف آئی اے کے عہدیداروں پر دباؤ ڈال رہی ہے اور نیب قوانین کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

’ایک مثبت قدم‘

قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ تفتیشی ایجنسیوں کو غیر جانبدار رکھنا ضروری ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ عدالت کا عمل مثبت ہے۔

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں عدالت کے اس اقدام کا خیرمقدم کرتا ہوں کیونکہ حکومت شہباز شریف اور دیگر رہنماؤں کے خلاف تحقیقات کو نقصان پہنچا رہی تھی اور تفتیشی معاملات میں مداخلت کر رہی تھی۔ عہدیداروں پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا اور انہیں بتایا جارہا تھا کہ اگر وہ حکومت کے خلاف جاتے ہیں تو ان کی ترقی نہیں ہو گی۔‘‘

پاکستان گرے لسٹ میں ہی رہے گا، ایف اے ٹی ایف

جسٹس وجیہ الدین کے مطابق  یہ کارروائی عہدیداروں کو بغیر کسی خوف کے تحقیقات کرنے کی ترغیب دے گی۔ انہوں نے کہا، ''ماضی میں عدالت نے نوٹس لیا جب پی پی پی حکومت نے ایف آئی اے کے عہدیداروں پر دباؤ ڈالا جو پی پی پی کے رہنما کے خلاف مقدمات کی تحقیقات کر رہے تھے۔ اگر ن لیگ حکومت نے کچھ غلط نہیں کیا ہے تو پھر اسے غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے اور عدالتوں میں زیر التواء تمام معاملات کا سامنا کرنا چاہیے۔‘‘

ن لیگ کا موقف

ن لیگ کا کہنا ہے کہ اس کی لیگل ٹیم اس حکم کو دیکھ رہی ہے۔ پارٹی کی ایک رہنما عظمٰی بخاری کا کہنا ہے تبادلے اور تقرر حکومت کا اختیار ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عجیب بات یہ ہے کہ ازخود نوٹس اس وقت کیوں نہیں لیا گیا جب رانا ثناء پر جھوٹا مقدمہ بنا۔ جب بشیر میمن نے کہا کہ وزیر اعظم ہاؤس بلا کر غداری کے مقدمے بنانے کا کہا جا رہا ہے۔ جب شوکت صدیقی مداخلت کی بات کر رہے تھے۔‘‘

ن لیگ کی رہنما کا مزید کہنا تھا، ''جہاں تک تبادلوں پر سوالات کی بات ہے تو سوال تو اس پر بھی اٹھتے ہیں کہ بینچوں میں مخصوص ججوں کو کیوں رکھا جاتا ہے۔‘‘