1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی سياست کے ليے تہلکہ خيز انکشافات: ’سوئيس سيکرٹس‘

21 فروری 2022

'سوئيس سيکرٹس‘ ميں دنيا کی کئی اہم شخصيات کے منی لانڈرنگ اور کرپشن ميں ملوث ہونے کا انکشاف کيا گيا ہے۔ ان خفيہ دستاويزات ميں جنرل ضياالحق کے دور ميں ملکی خفيہ ايجنسی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمان کا نام بھی شامل ہے۔

https://p.dw.com/p/47L9p
Credit Suisse Logo in einen Schaufenster
تصویر: Urs Flueeler/KEYSTONE/picture alliance

'پاناما پيپرز‘ کی طرز پر 'سوئيس سيکرٹس‘ ميں دنيا بھر سے کئی نامور سياست دانوں اور اہم شخصيات کے منی لانڈرنگ اور کرپشن ميں ملوث ہونے کا انکشاف کيا گيا ہے۔ سابق پاکستانی آمر، جنرل ضيا الحق کے دور ميں ملکی خفيہ ايجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ اور ضيا الحق  کے قريبی ساتھی جنرل اختر عبدالرحمان خان کا نام بھی سامنے آيا ہے، جن کے بارے ميں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے افغان جنگ کے دوران امريکا اور ديگر ممالک سے کئی ملين ڈالر وصول کر کے یہ رقوم افغانستان ميں 'مجاہدين‘ تک پہنچائیں۔

'سوئيس سيکرٹس‘ کيا ہيں؟

ايک شخص نے جس کی شناخت فی الحال مخفی رکھی گئی ہے، جرمن اخبار 'زُوڈ ڈوئچے سائٹُنگ‘ کو ہزارہا متنازعہ اکاؤنٹس کے بارے ميں اطلاع دی۔ اس جرمن اخبار نے يہ معلومات 'آرگنائزڈ کرائم اينڈ کرپشن رپورٹنگ پراجيکٹ‘ (OCCRP) سميت چھياليس اداروں تک پہنچائیں، جن ميں امريکی اخبار 'نيو يارک ٹائمز‘، برطانوی 'گارڈین‘ اور فرانس کے 'لموند‘ جيسے بڑے صحافتی ادارے بھی شامل ہيں۔ يہ ڈيٹا سوئٹزرلينڈ کے دوسرے سب سے بڑے بينک 'کريڈٹ سوئيس‘ کے بارے ميں ہے۔ الزام لگايا گيا ہے کہ بينک کے صارفين ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزياں کرنے والے افراد اور ايسی کاروباری شخصيات بھی شامل تھيں، جن پر پابندیاں عائد تھی۔ نيو يارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سن 1940 سے لے کر سن 2010 تک اٹھارہ ہزار اکاؤنٹس ميں مجموعی طور پر ايک بلين ڈالر سے زائد رقوم جمع تھی۔

’پاناما پیپرز‘ فرینکفرٹ میں ڈوئچے بینک پر چھاپے

پاناما پیپرز میں مذکور سب پاکستانیوں کے خلاف تفتیش کا فیصلہ

جے آئی ٹی، پاکستان کے مسائل اور جمہوری بادشاہتوں کی روایت

'کريڈٹ سوئيس‘ نامی بینک نے بيس فروری کی رات جاری کردہ اپنے ايک بيان ميں ان الزامات کی سختی سے ترديد کی ہے۔ بينک کے مطابق 'سوئیس سيکرٹس‘ ميں بيان کردہ 90 فيصد اکاؤنٹ اب بند ہو چکے ہيں۔ بينک کی انتظاميہ نے اپنے کاروباری فيصلوں ميں غیر قانونی یا ناجائز اقدامات کے الزام کو بھی رد کيا اور اپنے دفاع ميں کہا کہ ان خفيہ دستاويزات ميں بيان کی گئی زيادہ تر معلومات يا تو مکمل نہيں، يا درست نہيں يا پھر انہیں خاص طور پر اس طرح نامکمل رکھا گیا ہے کہ یوں اس بينک کے ساکھ پر منفی اثر پڑے۔

'سوئيس سيکرٹس‘ سے پاکستان کا تعلق؟

'نيو يارک ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق سن 1985 ميں جنرل اختر کے تين بيٹوں کے نام پر ايک اکاؤنٹ کھولا گيا۔ گو کہ ان پر کبھی رقوم کی ہيرا پھيری کا الزام نہيں لگا مگر چند برس بعد مذکورہ اکاؤنٹ ميں 3.7 ملين ڈالر جمع ہو چکے تھے۔

'آرگنائزڈ کرائم اينڈ کرپشن رپورٹنگ پراجيکٹ‘ (OCCRP) کی رپورٹ ميں زيادہ وضاحت کے ساتھ يہ لکھا گيا ہے کہ افغانستان ميں روسی افواج کے خلاف لڑنے کے ليے سعودی اور امريکی فنڈنگ امريکی خفيہ ادارے سينٹرل انٹيليجنس ايجنسی (CIA) کے سوئس اکاؤنٹ ميں جمع کرائی جاتی تھی۔ يہ رقوم بعد ازاں پاکستانی آئی ايس آئی تک پہنچتی تھيں، جس کے سربراہ اس وقت جنرل اختر عبدالرحمان خان تھے۔

رپورٹ کے مطابق 'کريڈٹ سوئيس‘ ميں جنرل اختر کے اہل خانہ کا ايک اکاؤنٹ، جو ان کے تينوں بيٹوں کے نام پر تھا، يکم جولائی سن 1985 کو کھولا گيا۔ اسی برس امريکی صدر رونلڈ ريگن نے افغان مجاہدين کے ليے دی جانے والی فنڈنگ کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کيا تھا۔ سن 2003 تک اس اکاؤنٹ ميں پانچ ملين سوئس فرانک يا 3.7 ملين ڈالر جمع ہو چکے تھے۔ ايک اور اکاؤنٹ جنرل اختر کے نام پر سن 1986 ميں کھولا گيا اور اس ميں نومبر سن 2010 تک 9.2 ملين ڈالر جمع ہو چکے تھے۔

پاکستانی روزنامہ 'ڈان‘ نے اپنی ایک رپورٹ ميں لکھا ہے کہ جنرل اختر کے ايک بيٹے نے ان الزامات کو رد کيا ہے اور کہا ہے کہ رپورٹ ميں درج معلومات درست نہيں۔

'سوئيس سيکرٹس‘ ميں دنيا کی کئی نامور شخصيات کے نام شامل ہيں اور آنے والے دنوں ميں يہ انکشافات عالمی سياست پر گہرے اثرات مرتب کريں گے۔ پاکستان ميں بھی اس پر وسيع تر سياسی رد عمل ديکھنے ميں آ سکتا ہے۔

ع س / م م (روئٹرز، او سی سی آر پی، ڈان)