1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حلقوں سے غائب رہنے والے سیاستدانوں کو عوامی عتاب کا سامنا

2 جولائی 2018

انتخابی مہم میں مصروف پاکستانی سیاسی جماعتوں کو ایک نئی مشکل نے آن گھیرا ہے۔ انتخابی امیدواروں سے عوام نے یہ سوال پوچھنا شروع کر دیے ہیں کہ جب حکومت میں تھے تو ان کے مسائل کے حل کے لیے کیوں کچھ نہیں کیا گیا؟

https://p.dw.com/p/30gSO
Pakistan Wahl
تصویر: DW/R. Saeed

دہائیوں سے مخصوص سیاسی جماعتوں کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں میں صرف انتخابات کے موقع پر دکھائی دینے والے سیاستدانوں کو ایک نئی صورتحال کا سامنا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو گزشتہ دو روز سے لیاری میں، جس صورت حال کا سامنا رہا، وہ ایک ہفتے قبل سکھر میں سینیئر سیاست دان خورشید شاہ سے شروع ہوئی تھی۔

پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو کی انتخابی زندگی کے آغاز کے لیے اپنے سب سے مضبوط حلقوں لاڑکانہ اور لیاری کا انتخاب کیا ہے۔ لیکن ماضی میں لیاری کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت کی ’غلط پالیسیوں اور گینگ وار کی سر پرستی‘ کا خمیازہ بلاول بھٹو زرداری کو بگھتنا پڑا ہے۔ یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ لیاری سے پیپلز پارٹی اس مرتبہ جیت بھی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ لیاری اب پیپلز پارٹی کا گڑھ نہیں رہا۔

Pakistan Wahl
تصویر: DW/R. Saeed

لیاری سے پیپلز پارٹی کے نمائندے ہر سطح پر منتخب ہوئے مگر علاقے کے مسائل حل نہیں ہو سکے، جس میں پینے کا صاف پانی، نکاسی آب اور بجلی کی فراہمی پیش پیش ہیں۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی نے ’گینگ وار کی سرپرستی‘ کرنے والے شرجیل میمن اور وفاداری کا حلف لینے والے جاوید ناگوری کو دوبارہ ٹکٹ دے دیے ہیں، جس نے لیاری کے عوام کے غصے کو مزید شدید کر دیا ہے۔

سینئر صحافی اور اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے ڈوچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عوام کا سیاستدانوں سے سوال کرنے کا رجحان صحت مند تو ہے لیکن اگر یہ زیادہ بڑھ گیا تو خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، ’’جمہوریت یہی ہے کہ مہذب انداز میں سوال کیے جائیں اور حساب مانگا جائے، یہی تبدیلی ہے۔ الیکشن وقت پر ہوتے رہیں گے تو صورتحال میں بہتری آتی جائے گی۔‘‘

Pakistan Wahl
تصویر: DW/R. Saeed

یہ صورتحال صرف پیپلز پارٹی تک ہی محدود نہیں۔ ووٹرز دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ سندھ کی دوسری بڑی جماعت ایم کیو ایم کو درپیش صورت حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے گزشتہ جمعے کو کراچی کی میمن مسجد سے انتخابی مہم کا آغاز کیا تو انہیں بھی عوام کے غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بزرگ شہری نے ان سے سالوں کھالیں چھیننے پر اللہ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار کہتے ہیں کہ یہ صورتحال صرف ذرائع ابلاغ کے لیے نئی ہے، سیاستدانوں کے لیے نہیں،’’ماضی میں بھی جب انتخابی مہم چلائی جاتی تھی تو ووٹرز سوال پوچھتے تھے، اب ہر شخص کے پاس موبائل فون ہے، انٹرنیٹ دستیاب ہے، سوشل میڈیا پر ویڈیو باآسانی دستیاب ہے اور میڈیا کو 24 گھنٹے نشر کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو چاہیے۔‘‘

دوسری جانب ایم کیو ایک کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی بھی جب اپنے حلقے میں ووٹرز سے ملنے گئے تو ان کا بھی مشتعل ووٹرز نے اسی انداز میں استقبال کیا۔ سندھ کےسابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ہوں یا ان کی کابینہ کے رکن جام مہتاب ڈہر یا پھر تحریک انصاف کے عارف علوی اور خرم شیر زمان اس مرتبہ ووٹرز نے کسی کو نہیں بخشا۔

 ’’الیکشن ٹرینڈ حوصلہ افزا نہیں ہے‘‘ شاہ زیب جیلانی

روزنامہ ایکسپریس سے منسلک کالم نگار مقتدٰی منصور کہتے ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا سے تبدیلی آئی ہے اور ڈائیلاگ شروع ہوا ہے، ’’سوشل میڈیا پر بغیر سینسرشپ کے چیزیں آنے سے عوام کو حکومت اور سیاسی جماعتوں کی کارکردگی جانچنے کا موقع ملا ہے۔ تاہم اگر سوشل میڈیا کی ’نگرانی‘ نہ کی گئی تو یہ رجحان پرتشدد بھی ہو سکتا ہے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ 2013 میں تو پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی نے ناقص حکومتی کارکردگی کو طالبان حملوں کے پیچھے چھپا کر خود کو عوامی غصے سے بچانے کا انتظام کر لیا تھا لیکن اس بار انہیں کوئی نیا بہانہ تلاش کرنا ہو گا۔