1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

 ’’الیکشن ٹرینڈ حوصلہ افزا نہیں ہے‘‘ شاہ زیب جیلانی

29 جون 2018

پاکستان کے ایک سینیئر صحافی شاہ زیب جیلانی کا کہنا ہے کہ 2018 ء کے انتخابات کے لیے نہ تو جمہوری فضا پائی جاتی ہے نہ ہی الیکشن کے صاف اور شفاف ہونے کے امکانات ہیں۔ ان کے بقول انتخابات جمہوری فضا میں ہی منعقد ہونے چاہیں۔

https://p.dw.com/p/30YBc
تصویر: privat

جرمنی کے دفتر خارجہ اور گوئٹے انسٹیٹیوٹ کی طرف سے بطور مہمان جرمنی کے  دورے پر آئے ہوئے پاکستانی صحافیوں کے ایک وفد میں شامل شاہ زیب جیلانی نے ڈی ڈبلیو شعبہ اُردو کے ساتھ خصوصی گفتگو کی۔ اس موقع پر پاکستان کی سیاسی صورتحال اور 25 جولائی کو ہونے والے مجوزہ پارلیمانی انتخابات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے شاہ زیب کا کہنا تھا، ’’ الیکشن ایک جمہوری عمل ہے، جسے جمہوری فضا میں ہے منعقد ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بعض ادارے اور قوتیں چاہتی ہیں کہ اُن کی مرضی کی حکومت برسر اقتدار آئے۔ اس کے لیے الیکشن سے پہلے تمام تر حربے استعمال کیے جا رہے ہیں‘‘۔

ڈی ڈبلیو کی طرف سے کیے گئے اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کے اس بارکے الیکشن کو کیوں غیر معمولی اہم قرار دیا جا رہا ہے؟ شاہ زیب کا کہنا تھا،’’ ملک کے چند اہم اداروں یہاں تک کہ سپریم کورٹ اور انٹیلیجنس پر سوالیہ نشان لگائے جا رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ایک کمزور حکومت قائم ہو۔ لاکھوں کروڑوں ووٹ لے کر ایوانوں میں آنے والے ارباب اقتدار کو نالوں اور سڑکوں کی تعمیر تک محدود کر کے رکھا جاتا ہے۔ ایسی کمزور حکومت کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا ملک کے اہم معاملات جیسے کہ خارجہ امور، بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات وغیرہ پر کوئی اختیار نہ ہو۔‘

DW Urdu Blogger - Shahzeb Ali Shah Jilani
تصویر: privat

کیا پاکستان کے آئندہ انتخابات کے بارے میں کوئی پیشگوئی کی جا سکتی ہے؟

اس بارے میں شاہ زیب نے اپنا موقف بالکل واضح طور پر بیان کرتے ہوئے کہا،’’ پاکستان میں جو الیکشن ٹرینڈ نظر آ رہا ہے وہ قطعاً حوصلہ افزا نہیں۔ تمام قوتیں اور ادارے پی ٹی آئی کو جتوانے کے لیے تمام تر حربے استعمال کر رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک ’’ہینگ پارلیمان‘‘ ہی وجود میں آنے جا رہی ہے۔ ایسے کئی شواہد مل رہے ہیں کہ کسی کو بلیک میل کیا جا رہا ہے کسی کو لالچ دی جا رہی ہے، یہ تمام ماحول جمہوری عمل کے لیے نقصاندہ ہے۔‘‘

کیا اسٹیبلشمنٹ کی تائید و حمایت سے بننے والی حکومت مضبوط اور فعال ہو سکتی ہے؟

اس سوال کا جواب شاہ زیب یوں دیتے ہیں،’’یہ سب کچھ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار نہیں ہو رہا۔ اس سے پہلے میاں نواز شریف کا عروج بھی اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھی پر ہوا تھا۔ آگے چل کر اُن کا اور آرمی چیف کا ٹکراؤ شروع ہوا اور وہ ایکدم سے نظریاتی ہوگئے۔ ایسا ماضی میں ذوالفقارعلی بھٹو کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ ملک میں پرانے فارمولے کو اپ ڈیٹ کر کے لاگو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پولیٹکل انجینیئرنگ سے ملک کو نقصان پہنچتا ہے۔‘‘

شاہ زیب کا کہنا ہے کہ عوام کو اظہار رائے کا حق نہ دینے سے غم و غصہ بڑھے گا۔ پی ٹی ایم موومنٹ پُر امن ہونے کے باوجود بُری طرح دباؤ کا شکار ہے اور پاکستان کا میڈیا اتنا ’’آزاد‘‘ ہونے کے باوجود خاموش کیوں ہے؟

مذہبی جماعتوں کو سیاست کا پورا حق حاصل ہے تاہم عملی طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ مذہبی رہنما اور جماعتیں جب تفرقہ اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلانا شروع کر دیں تو یہ ملک اور قوم کے لیے بہت نقصاندہ ثابت ہوتا ہے۔ جنونیت اور تشدد پر اُکسانے کا عمل کہیں سے جمہوری نہیں ہے اور نہ ہی اس کی کوئی گنجائش ہونی چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار کیا شاہ زیب جیلانی نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے خصوصی انٹرویو میں۔ 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں