1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی نے سینکڑوں شامی مہاجرین کو ملک بدر کیا، رپورٹ

25 اکتوبر 2022

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق رواں برس فروری اور جولائی کے درمیان ترکی نے سیکڑوں شامیوں کو زبردستی ملک بدر کر دیا۔ مہاجرین کا کہنا ہے کہ انہیں ان فارموں پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا جسے وہ رضاکارانہ وطن واپسی سمجھتے تھے۔

https://p.dw.com/p/4IdLf
Syrien Millionen von Menschen sind auf Hilfe angewiesen
تصویر: Francisco Seco/AP Photo/picture alliance

حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' (ایچ آر ڈبلیو) نے 24 اکتوبر پیر کے روز کہا کہ ترک حکام نے فروری اور جولائی 2022 کے درمیان سینکڑوں شامی لڑکوں اور مردوں کو من مانے طور پر گرفتار کر کے شام بھیج دیا۔

یونان اور ترکی کے درمیان جزیرے پر پھنسے مہاجرین کے فوری انخلا کا مطالبہ

گروپ کا کہنا ہے کہ ایسے بہت سے جلاوطن شامیوں نے تنظیم کے محققین کو بتایا ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو ان کے گھروں، کام کی جگہوں اور یہاں تک کہ انہیں سڑکوں پر سے ہی گرفتار کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر وقت ان کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی تھی اور انہیں ایسی دستاویزات پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا تھا، جسے وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کے معاہدے ہیں۔

'ترکی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے'

انسانی حقوق کے گروپ نے جن افراد سے انٹرویو کیا انہوں نے تنظیم کو بتایا کہ انہیں ہمسایہ ملک شام کے ساتھ سرحد پر لے جایا گیا اور بندوق کی نوک پر زبردستی سرحد عبور کرنے پر مجبور کیا گیا۔

شامی حکومت ملک چھوڑنے والے شہریوں کی واپسی کے لیے پر امید

ہیومن رائٹس واچ میں پناہ گزینوں اور تارکین وطن کے حقوق کی محقق نادیہ ہارڈمین کا کہنا تھا، ''بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، ترک حکام نے سینکڑوں شامی پناہ گزینوں،  یہاں تک سرپرست کے بغیر بچوں کو بھی پکڑا اور انہیں واپس شام بھیج دیا۔''

انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین کو چاہیے کہ جب تک اس طرح کی جبری ملک بدری ختم نہیں ہو جاتی، اس وقت تک وہ اپنی امداد میں کمی کر دے۔ واضح رہے کہ یورپی یونین ترکی میں تارکین وطن کے رہائشی مراکز کے لیے خصوصی فنڈ فراہم کرتی ہے۔

شامی مہاجرین  فوری پناہ کی حیثیت کے حقدار نہیں، جرمن عدالت

ایچ آر ڈبلیو نے فروری اور اگست کے درمیان ایسے 37 شامی مردوں اور دو لڑکوں کے ساتھ ہی ان لوگوں کے رشتہ داروں کا انٹرویو بھی کیا ہے، جنہیں ترکی سے ملک بدر کیا گیا تھا۔ انٹرویو دینے والوں نے بتایا کہ انہیں درجنوں یا پھر سینکڑوں دیگر لوگوں کے ساتھ ترکی سے باہر نکالا گیا تھا۔

Flash-Galerie 60 Jahre Genfer Flüchtlingskonvention
ترکی میں تقریبا 35 لاکھ شامی تارکین وطن نے پناہ لے رکھی ہے، جس کے لیے یورپی وینین امداد بھی فراہم کرتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

کیا شام پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ہے؟

انقرہ کو اس بین الاقوامی اصول کی خلاف ورزی کرنے والا مانا جا سکتا ہے، جس کے مطابق حکومتیں سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو ان ممالک میں واپس نہ بھیجنے کی پابند ہیں، جہاں انہیں تشدد یا ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہو۔

اقوام متحدہ کے کمیشن آف انکوائری نے شام کے بارے میں گزشتہ ماہ کہا تھا کہ شام پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے محفوظ مقام نہیں ہے۔

 کمیشن کا کہنا تھا کہ شام میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے، جہاں حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں غیر قانونی طور پر حراست میں لینے اور تشدد ایک عام بات ہے۔

شام سے متعلق ترکی کا موقف کیا ہے؟

ایک وقت تھا جب ترکی شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کا کھلا دشمن تھا، تاہم تقریباً ایک دہائی کی دشمنی کے بعد اب اس نے اپنے پڑوسی کے بارے میں اپنا موقف نرم کر لیا ہے۔

انقرہ نے گیارہ سالہ تنازعے کے ابتدائی برسوں میں شام کے ساتھ سفارتی تعلقات تک منقطع کر لیے تھے، لیکن ترک وزیر خارجہ چاوش اولو نے دو ہفتے قبل ہی کہا تھا کہ شامی اپوزیشن اور حکومت کو مفاہمت کے لیے اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھی حال ہی میں ممکنہ سیاسی مصروفیت کا اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کبھی مکمل طور پر منقطع نہیں ہو سکتے۔ واضح رہے کہ ترکی میں جون 2023 میں انتخابات ہونے والے ہیں۔

سن 2016 سے اب تک ترکی نے شمالی شام میں چار فوجی آپریشن بھی کیے ہیں۔ تاہم انقرہ کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسا محفوظ زون بنا رہا ہے جہاں اس وقت اس کے ملک میں جو تقریباً 35 لاکھ شامی پناہ گزین مقیم ہیں، ان کی واپسی ممکن ہو سکتی ہے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، روشنی مجمدار)

شامی پناہ گزینوں کے لیے ترک ہلالِ احمر کی امدادی سرگرمیاں