1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیس سابق فرانسیسی جرنیلوں کے حکومت کا تختہ الٹے جانے کے خواب

2 مئی 2021

فرانسیسی مسلح افواج کے بیس سابق جرنیل ملک میں سیاسی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے خواب دیکھنے لگے تھے۔ انہوں نے فرانس کو اسلام پسندوں کی وجہ سے لاحق بڑھتے ہوئے خطرات کے باعث فوج سے اقتدار پر قبضے کی اپیل بھی کر دی تھی۔

https://p.dw.com/p/3srcx
فرانسیسی مسلح افواج کے ایک حصے کا خیال ہے کہ داخلی سلامتی سے متعلق صدر ماکروں کی پالیسیاں بہت ہی نرم ہیںتصویر: Reuters/C. Ena

ان ریٹائرڈ فرانسیسی جرنیلوں نے اپنی اپیل میں جو موقف اختیار کیا تھا، اس کے مطابق 'فرانس اس وقت خطرے میں ہے‘۔ ملکی مسلح افواج کے یہ پینشن یافتہ اعلیٰ ترین افسران چاہتے تھے کہ فرنچ آرمڈ فورسز اس لیے اقتدار پر قبضہ کر لیں کہ ملک کو لاحق 'اسلام پسندوں کی وجہ سے بڑھتے ہوئے خطرات‘ اور ملک کے 'بڑے شہروں کے چھوٹے چھوٹے مضافاتی شہروں سے بار بار پرتشدد مظاہروں کے لیے نکلنے والے ہجوموں‘ دونوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔

پاکستان:فرانسیسی سفیر کی بے دخلی پر پارلیمان میں بحث

اس پیش رفت کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے لیے کسی بہت بڑے چیلنج سے کم نہیں۔

'اسی اسی سالہ بوڑھے‘

ان بیس ریٹائرڈ فرانسیسی جرنیلوں نے ایک کھلا خط لکھا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ فرانسیسی جمہوریہ خطرے میں ہے۔ ان کے اس خط کے بارے میں شروع میں تو ملکی حکومت نے کسی تشویش کا اظہار نا کیا اور ملک کی خاتون وزیر دفاع پارلی نے بھی کہا کہ یہ خط 'اسّی اسّی سال کے افراد کے عجیب و غریب خوابوں کی عکاسی‘ کرتا ہے، جو گاؤن اور چپلیں پہنے گھروں میں بیٹھے اپنا وقت گزارتے ہیں۔

تمام فرانسیسی شہری، ادارے پاکستان سے چلے جائیں، سفارتی ہدایت

Frankreich Der frühere General Christian Piquemal bei einer fremdenfeindlichen Demonstration
کھلے خط کی صورت میں فوجی بغاوت کی اس اپیل کے محرکین میں سابق فوجی جنرل کرستیاں پیکمال (تصویر، درمیان میں) بھی شامل ہیں، جنہیں دو ہزار سولہ میں تارکین وطن کے خلاف ایک مظاہرے میں شرکت کی وجہ سے فوج سے برطرف کر دیا گیا تھاتصویر: Michel Spingler/AP Photo/picture alliance

پھر اسی ہفتے گزشتہ چند دنوں کے دوران فرانس میں یہ بحث زور پکڑ گئی کہ ان سابقہ جرنیلوں نے جو کچھ کہا ہے، وہ سیاسی آتش زنی کے لیے استعمال ہو سکنے والے کسی فائر بم سے کم نہیں۔

فرانس کی خلاء میں پہلی فوجی مشقیں

فرانس میں اس واقعے کو اس طرح بھی دیکھا جا رہا ہے کہ اگلے سال کے اوائل میں ملک میں ہونے والے انتخابات کے پیش نظر یہ دراصل انتہائی دائیں بازو کے سیاسی حلقوں کی طرف سے ان کی انتخابی مہم کا آغاز ہے۔ مگر بات ایسی ہے کہ کسی بھی مغربی جمہوری معاشرے، خاص طور پر فرانس جیسے ملک میں، اس کو سرے سے نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔

'مضافاتی شہروں سے نکلنے والے مشتعل ہجوم‘

یہ کھلا خط فرانس میں انتہائی دائیں بازو کے ایک جریدے Valeurs Actuelles میں شائع ہوا اور اس کی لفاظی ایسی ہے کہ اسے صرف بغاوت پر اکسانے کے لیے استعمال کیے جانے والے الفاظ ہی کا نام دیا جا سکتا ہے۔

اس خط میں جو کئی بہت عجیب اور سیاسی طور پر پہلے نا سنی گئی باتیں کہی گئی تھیں، ان میں ایسے جملے یا الفاظ بھی شامل تھے: ''موجودہ وقت بہت مشکل ہے، فرانس کو خطرہ ہے۔‘‘

فرانس کے سابق صدر سارکوزی کو کرپشن کیس میں سزائے قید

Paris Marine Le Pen Front National
فرانس میں دائیں بازو کی انتہا پسند سیاسی جماعت آر این پارٹی کی سربراہ مارین لے پینتصویر: Elizabeth Bryant/DW

عشروں پہلے فرانس بھیجے گئے ’چوری شدہ‘ بچوں کے ہنوز جواب طلب سوالات

اس کے علاوہ اسی خط میں لکھا گیا کہ 'نسل پرستی کے خلاف‘ ایک مخصوص طرز فکر شہروں اور بلدیاتی علاقوں میں نفرت کے بیج بو رہا ہے۔ اور پھر 'نوآبادیاتی نظام کے خلاف نظریوں سے ہمارے ملک، اس کی روایت اور ثقافت کی تذلیل‘ کی گئی ہے اور یہ بات فرانس کے ماضی اور اس کی تاریخ کو تباہ کر رہی ہے۔

ساتھ ہی اس خط میں مزید لکھا گیا کہ 'اسلام پسندی‘ اور زیادہ تر تارکین وطن کی آبادی والے 'چھوٹے شہروں سے نکلنے والے ہجوم‘ جو کچھ کر رہے ہیں، اس کا نتیجہ ملک کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔ ان ڈیڑھ درجن سے زائد فرنچ جرنیلوں نے اپنے اس مشترکہ کھلے خط میں یہ بھی لکھا کہ فرانس کے بڑے شہروں کے چھوٹے چھوٹے مضافاتی قصبوں اور شہروں میں پہلے ہی لاقانونیت کا دور دورہ ہے اور وہاں خطرات اور تشدد کا استعمال روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔

خط لکھنے والے جرنیل کون؟

یہ خط جسے فوج کو بغاوت کی دعوت دینے کے علاوہ سیاسی طور پر کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا، بیس ایسے ریٹائرڈ جرنیلوں نے لکھا، جن میں مثال کے طور پر کرستیان پیکمال بھی شامل ہیں۔ پیکمال کو 2016ء میں انتہائی دائیں باز کی سوچ کی مظہر مصروفیات کی وجہ سے فرانسیسی فوج سے برطرف کر دیا گیا تھا۔

فرانس میں مسلم انتہا پسندی کے خلاف قانون کی پارلیمانی منظوری

فرانسیسی سیکولرازم، اسکول کا نام مقتول ٹیچر پر رکھنے سے انکار

دیگر سابق جنرل انتہائی دائیں بازو کی ایک سیاسی جماعت آر این کے سرگرم رکن ہیں۔ اس جماعت کی سربراہ فرانس کی انتہائی دائیں باز وکی مشہور لیکن کافی متنازعہ خاتون سیاستدان مارین لے پین ہیں۔ ان میں سے ایک فرانسوا فوبیئر وہ ہیں، جو شہر موں پیلیئے کی بلدیاتی کونسل کے رکن بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور سابق جنرل ایمانوئل رِشوفٹس ہیں، جو 2019ء کے بلدیاتی الیکشن میں امیدوار بھی تھے۔

اٹھارہ حاضر سروس فوجی بھی

مجموعی طور پر اس کھلے خط پر دستخط کرنے والوں میں سابق جرنیل تو بیس تھے مگر دستخط کنندگان کی مجموعی تعداد سینکڑوں میں تھی، جو سب کے سب فرانسیسی فوج کے ریٹائرڈ افسران ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ اس خط پر دستخط کرنے والوں میں فرانسیسی فوج کے 18 ایسے حاضر سروس فوجی بھی شامل ہیں، جنہیں ان کی طرف سے فوجی ضابطہ اخلاق کی شدید خلاف ورزی کی وجہ سے اب جبری پینشن پر بھیج دیا جائے گا۔

کورونا کی وبا، فرانس میں دیگر جرائم کم لیکن ریپ زیادہ ہو گئے

اس بارے میں فرانسیسی فوج کے کمانڈر ان چیف فرانسوا لکوائنتر کے مطابق ایسے تمام سابق فوجیوں اور افسران کو بوقت ضرورت استعمال میں لائے جانے والے ریٹائرڈ لیکن ریزرو فوجیوں کی فہرست سے ہمیشہ کے لیے خارج کر دیا جائے گا جبکہ اس خط پر دستخط کرنے والے جاضر سروس فوجیوں کو تو سرے سے برطرف ہی کر دیا جائے گا۔

'محض انتخابی مہم‘

اس خط کے بارے میں جرمن فرنچ انسٹیٹیوٹ کے سیاسی امور کے ماہر فرانک باسنر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ ساری کارستانی محض انتخابی سیاسی مہم ہے، اور کچھ بھی نہیں۔‘‘ انہوں نے اس حوالے سے بڑی حیرانی کا اظہار کیا کہ فرانسیسی مسلح افواج میں انتہائی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والے اتنے زیادہ سابقہ افسران کا مشترکہ موقف فرانس کے اعلانیہ طور پر انتہائی دائیں بازو کے ایک جریدے میں شائع ہوا ہے۔

الجزائر میں نوآبادیاتی دور کے مظالم پر معافی نہیں مانگیں گے، فرانس

فرانک باسنر کے مطابق جرمنی اور فرانس دونوں ممالک میں مسلح افواج کے ارکان کی ایک چھوٹی سی تعداد ہمیشہ ایسی ہوتی ہی ہے، جو یہ چاہتی ہے کہ ریاست کو زیادہ سے زیادہ مضبوط ہونا چاہیے۔ باسنر نے مزید کہا کہ فرانس میں بڑھتی ہوئی اسلام پسندی اور مسلمان شدت پسندوں کی طرف سے بار بار کیے جانے والے خونریز حملوں کی وجہ سے ملک میں یہ معاملہ ایک بڑا سیاسی موضوع بن گیا ہے، جس کا تعلق ملکی اور سماجی سلامتی سے ہے اور جس کے بارے میں بات کرتے ہوئے جذباتیت بھی دیکھنے میں آتی ہے۔

م م / ک م (باربرا ویزل)