1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردییورپ

برطانوی رکن پارلیمان ڈیوڈ امیس ’دہشت گردانہ حملے‘ میں ہلاک

16 اکتوبر 2021

برطانوی کنزرویٹو پارٹی کے رکن پارلیمان ایسیکس کے علاقے کے ایک چرچ میں اپنے حلقے کے لوگوں سے مل رہے تھے کہ ان پر چاقو سے حملہ کیا گیا۔ پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کر لیا اور حملے کو ممکنہ ’دہشت گردانہ واقعہ‘ قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/41l1Q
David Amess
تصویر: Matrix/imago images

برٹش پارلیمنٹ کے رکن سر ڈیوڈ امیس پر 15 اکتوبر جمعے کے روز کیے گئے اس حملے میں ایک شخص نے ان پر چاقو سے کئی وار کیے۔ وہ جس وقت ساحلی قصبے ’لائی آن سی‘ کے ایک چرچ میں اپنے حلقے کے لوگوں سے ملاقات کر رہے تھے، یہ حملہ اسی وقت کیا گیا۔ مشتبہ حملہ آور بھی اس اجتماع میں شریک تھا۔

پولیس نے بتایا کہ حملے کے فوری بعد انہیں ہنگامی طبی امداد دی گئی لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ برٹش میٹروپولیٹن پولیس نے ایک بیان میں اس حملے کو ’دہشت گردی کا واقعہ‘ قرار دیا ہے۔

پولیس نے 16 اکتوبر ہفتے کی صبح جاری کردہ ایک بیان میں کہا، ’’ابتدائی تفتیش سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ حملہ ممکنہ طور پر مسلم انتہا پسندانہ تحریک سے جڑا ہوا حملہ ہے۔‘‘ پولیس نے کہا کہ چونکہ اس خونریز واقعے کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دیا جا چکا ہے، اس لیے اب اس کی تفتیش انسداد دہشت گردی کے ذمے دار حکام کے حوالے کر دی گئی ہے۔

حملے سے متعلق دستیاب معلومات

جمعے کے روز بیل فیئرز میتھوڈسٹ چرچ میں ڈیوڈ امیس جب اپنے حلقے کے ووٹروں سے ملاقات کر رہے تھے، تو مبینہ حملہ آور نے ان پر چاقو سے کئی وار کیے۔ فوری طور پر پولیس کو طلب کیا گيا اور اس 25 سالہ مشتبہ ملزم کو گرفتار کر لیا گیا، جس کے پاس سے پولیس نے چاقو بھی برآمد کر ليا۔

زخمی حالت میں چرچ سے باہر لائے جانے سے قبل ایمرجنسی ورکرز نے ڈیوڈ امیس کی حالت کو مستحکم بنانے کی پوری کوشش کی۔ اس دوران انہیں ہسپتال لے جانے کے لیے ایک ہیلی کاپٹر بھی چرچ کے باہر موجود تھا۔ تاہم تمام کوششیں ناکام رہیں اور امیس دم توڑ گئے۔

Leigh-on-Sea, UK | British Lawmaker Sir David Amess reportedly stabbed
تصویر: Tony O'Brien/Reuters

پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ مشتبہ حملہ آور نے یہ حملہ اکیلے کیا اور اس قتل کے سلسلے میں تفتیش کاروں کو ممکنہ طور پر مشتبہ کسی اور شخص کی تلاش نہیں۔

ڈیوڈ امیس کون تھے؟

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ڈیوڈ امیس کو ایک ایسی شخصیت قرار دیا، جو ’اپنے وطن اور اس کے مستقبل کے بارے میں جوش و جذبے سے یقین‘ رکھتے تھے۔ جانسن نے کہا کہ پولیس کو اس قتل کی تحقیقات جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

بورس جانسن کا کہنا تھا کہ سر ڈیوڈ امیس کی موت سے ’’ہر کوئی شدید صدمے سے دوچار ہے۔‘‘ انہوں نے مقتول ڈیوڈ امیس کو ’سیاست میں ایک بہت ہی مہربان،  نہایت اچھا اور شریف انسان‘ قرار دیا۔

ڈیوڈ امیس  پہلی بار سن 1983 میں رکن پارلیمان منتخب ہو کر دارالعوام پہنچے تھے اور سن 1997 سے ہی ساؤتھ ویسٹ پارلیمانی حلقے سے نمائندگی کرتے آئے تھے۔ کنزرویٹو جماعت کے بیشتر ارکان اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں تاہم امیس کبھی کسی ایلیٹ اسکول میں زیر تعلیم نہیں رہے تھے اور انہوں نے دوران ملازمت پڑھائی کرتے ہوئے یونیورسٹی ڈگری حاصل کی تھی۔

Großbritannien Tory-Politiker David Amess getötet
تصویر: Matrix/imago images

امیس کی پرورش رومن کیتھولک مسیحی عقائد کے تحت ہوئی تھی اور سماجی معاملات میں وہ قدامت پسندانہ سوچ کے حامل انسان تھے۔ انہتر سالہ امیس شادی شدہ تھے اور انہوں نے اپنے پیچھے اپنی اہلیہ کے علاوہ چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کو سوگوار چھوڑا ہے۔ انہیں برطانوی ملکہ نے سن 2015 میں نائٹ ہڈ ایوارڈ سے نوازا تھا، جس کے بعد وہ سر ڈیوڈ امیس کہلانے کے حق دار ہو گئے تھے۔

امیس کے قتل پر سیاست دانوں کا رد عمل

برطانیہ کے کئی اہم سیاسی رہنماؤں اور سماجی شخصیات نے ڈیوڈ امیس کے قتل پر  گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم بورس جانسن کی اہلیہ کیری جانسن نے ان کی موت کو ایک ’تباہ کن خبر‘ قرار دیا اور کہا کہ مقتول رکن پارلیمان ’انتہائی شفیق‘ انسان تھے۔

برطانوی نائب وزیر اعظم ڈومینیک راب نے بھی ان کی موت پر گہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت وسیع القلب اور سخی تھے۔ وزیر تعلیم ندیم ذہاوی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’ساوتھ اینڈ ویسٹ کے لوگ انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔‘‘

ایک اور برطانوی وزیر ساجد جاوید نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ سر ڈیوڈ امیس ’ایک عظیم انسان، عظیم دوست اور عظیم رکن پارلیمان تھے، جو اپنا جمہوری کردار ادا کرتے ہوئے‘ مارے گئے۔

ص ز / م م (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں