1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

ایران میں پاکستانی مزدوروں کا قتل اور لواحقین کا احتجاج

29 جنوری 2024

پاکستان نے ایران میں ہونے والے ایک وحشیانہ حملے میں اپنے شہریوں کی ہلاکت کی جامع تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ادھر ایرانی وزیر خارجہ اسلام آباد میں آج پیر کے روز اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4bmMR
ممتاز زہرہ بلوچ
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ایرانی حکام سے بات چیت میں واقعے کی فوری طور پر تحقیقات کرنے اور اس گھناؤنے جرم میں ملوث افراد کا محاسبہ کرنے کی ضرورت پر زور دیاتصویر: Muhammet Nazim Tasci/Anadolu/picture alliance

ایران میں ہلاک ہونے والے متعدد پاکستانی مزدوروں کے اہل خانہ نے احتجاج کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے عزیزوں کی لاشوں کو ایران سے واپس لانے میں مدد کی جائے تاکہ ان کے آبائی علاقوں میں انہیں دفنایا جا سکے۔

پاکستان ایران کشیدگی: کیا سفارت کاری مزید تصادم روک پائے گی؟

واضح رہے کہ ہفتے کے روز پاکستان سے متصل ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے شہر سراوان کے سرکان علاقے میں نامعلوم بندوق برداروں نے متعدد پاکستانی مزدوروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ بعض اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد نو ہے جبکہ بعض کے مطابق پانچ ہلاک اور دیگر زخمی ہوئے۔

ایران سے کشیدگی پر پاکستان میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس

فوری طور پر کسی بھی گروپ یا فرد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

لواحقین کا احتجاج اور مطالبہ

ہلاک ہونے والے مزدوروں کا تعلق پاکستان کے صوبے پنجاب سے ہے، جنہیں سنیچر کے روز گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس: پاک ایران تعلقات میں کشیدگی کم کرنے کا عندیہ

 فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ نے اتوار کے روز مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور میں اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ ان کے پیاروں کی باقیات کو واپس پاکستان لا جائے تاکہ ان کی آخری رسومات ان کے آبائی شہر میں ادا کی جا سکیں۔

اقوام متحدہ اور امریکہ کی پاکستان اور ایران سے تحمل برتنے کی اپیل

ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین نے حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ قصورواروں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے۔ ان کے مطالبات کو سول سوسائٹی کے گروپوں کی بھی حمایت حاصل ہے،  جو یکجہتی کے اظہار کے لیے اس احتجاج میں ان کے ساتھ شامل ہوئے۔

پاکستانی حملے میں ہلاکتوں کی تعداد نو ہوگئی، ایرانی حکام

اطلاعات کے مطابق یہ پاکستانی مزدور گزشتہ آٹھ تا 10 برس سے ایران میں ملازمت کر رہے تھے اور اپنی خریدی گئی جائیدادوں میں رہتے تھے۔ ان پر فائرنگ کرنے سے پہلے ان کی قومیت کے بارے میں بھی پوچھا گیا تھا۔

ہماری تنظیم کا پاکستانی سرزمین پر کوئی وجود نہیں، جیش العدل

مزدوروں پر یہ وحشیانہ حملہ ایک ایسے وقت ہوا، جب پاکستان اور ایران سرحدی علاقوں میں ایک دوسرے خلاف عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملہ کرنے کے بعد اپنے تعلقات دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ اس سلسلے میں بات چیت کے لیے گزشتہ شب اسلام آباد پہنچے تھے۔

ایرانی حملے کا مقام
دو ہفتے قبل کی بات ہے جب ایران نے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں میزائل سے حملہ کر کے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کا دعوی کیا تھاتصویر: Ghani Kakar/DW

پاکستان کا تحقیقات کا مطالبہ

پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس حملے کی جامع تحقیقات اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف فوری قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ اس حوالے سے، ''ہم ایرانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں اور واقعے کی فوری طور پر تحقیقات کرنے اور اس گھناؤنے جرم میں ملوث افراد کا محاسبہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔''

ادھر ایران میں پاکستانی سفارت کار نے بھی اس حوالے سے مقامی حکام سے ملاقات کی ہے، تاکہ مجرموں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کیا جا سکے۔ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ حملے میں ہلاک ہونے والوں کی باقیات کی فوری وطن واپسی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

ایران میں پاکستان کے سفیر مدثر ٹیپو نے ہلاکتوں پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے سوگوار خاندانوں کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ''ہم نے ایران سے اس معاملے میں مکمل تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔''

ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان

ایران اور پاکستان کے وزرائے خارجہ 29 جنوری پیر کے روز اسلام آباد میں اہم بات چیت کر رہے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اتوار کی شب کو اسلام آباد پہنچے تھے۔

دو ہفتے قبل ایران نے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں میزائل سے حملہ کر کے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کا دعوی کیا تھا، جس کے بعد پاکستان نے بھی ایرانی صوبے سیستان بلوچستان پر جوابی حملہ کیا تھا اور اس نے بھی متعدد عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کی بات کہی تھی۔ اس کی وجہ سے دونوں میں تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے اور یہ ملاقات انہیں کو درست کرنے کی ایک کوشش ہے۔

 ایرانی خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق اسلام آباد روانگی سے قبل ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ تہران ''دشمنوں '' کو ''خطے میں دوستی، امن اور سلامتی'' کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دے گا۔

ادھر اسی وقت پاکستان نے ایران سے سراوان واقعے کی تحقیقات کرنے اور اس گھناؤنے جرم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔

ص ز / ج ا (خبر رساں ادارے)

ایرانی معیشت کا بڑا حصہ، ایرانی انقلابی گارڈز کے ہاتھ میں