1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ای سی پی کا جواب: سیاسی ماحول میں گرمی برقرار

عبدالستار، اسلام آباد
5 مارچ 2021

پاکستان میں سیاسی گرما گرمی اب بھی برقرار ہے اور اب اس سیاسی جنگ میں ملک کا الیکشن کمیشن بھی کودتا ہوا نظر آ رہا ہے، جس نے وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کا آج بھرپور جواب دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3qGUy
Pakistan Isalamabad - Premierminister Imran Khan
تصویر: picture-alliance/AA/Pakistan Prime Ministry Office

سینیٹ الیکشن کے نتائج پر وزیر اعظم عمران خان کی الیکشن کمیشن آف پاکستان پر کھلی تنقید کے بعد سیاسی ماحول مزید گرم یوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس غیر یقینی سیاسی ماحول میں ایک طرف پی ٹی آئی لوگوں سے رابطہ کر رہی ہے، دوسری طرف فضل الرحمان آصف علی زرداری اور نواز شریف آپس میں رابطہ کر رہے ہیں۔

ای سی پی کا سخت ردعمل

 وزیر اعظم نے کل خطاب میں ای سی پی پر تنقید کی تھی، جس کا جواب اس آئینی ادارے نے آج دیا ہے۔ کمیشن نے وزیر اعظم کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ حیران کن بات ہے کہ ایک ہی چھت کے نیچے، ایک ہی عملے کے ماتحت، جو انہوں نے جیتا وہ قابل قبول اور جو ہارا وہ نہ منظور۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟‘

یہ بیان کمیشن کے اجلاس کے بعد آج جاری کیا گیا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہر سیاسی جماعت اور رہنما میں شکست تسلیم کرنے کی جرات ہونی چاہیے اور یہ کہ اگر کسی کو نتائج کے ساتھ اتفاق نہیں، تو وہ ثبوت کے ساتھ آگے آئے۔

بیانات زیر بحث 

 آصف علی زرداری کا یہ بیان کہ یوسف رضا گیلانی کو مزید ووٹ ملنا چاہیے تھے۔ شاہد خاقان عباسی کا یہ بیان کے کہ 20 اراکین اسمبلی ان سے رابطے میں ہیں اور مریم نواز کا یہ اشارہ کے پیسہ نہیں بلکہ ٹکٹ چلا ہے، ملک کے کئی سیاسی حلقوں میں موضوع بحث ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اعلیٰ ایوانوں میں ضمیر بیچا جائے گا تو ملک کا کیا ہو گا؟ عمران خان

کئی  ناقدین کا خیال ہے کہ حزب اختلاف کا رویہ جمہوریت کے لیے مثبت نہیں ہے اور یہ کہ حزب اختلاف ہارس ٹریڈنگ اور سیاسی وفاداریوں کو بدلنے کی ترغیب دے رہی ہے، جس سے غیر جمہوری قوتوں کو مستقبل میں فائدہ ہوگا۔ کئی ناقدین سیاسی موقع پرستوں کو سیاسی اسپیس دینے کے خلاف ہیں۔

Wahlen in Pakistan I Nawaz Sharif
ن لیگ کی رہنما مریم نواز نے سینیٹ الیکشن کو عمران خان کی شکست قرار دیا ہے۔تصویر: Rana Sajid Hussain/Pacific Press/picture alliance

سیاسی موقع پرستی

 یہاں تک کہ نون لیگ کے کچھ رہنما بھی اس خیال کے حامی ہیں کہ سیاسی موقع پرستوں کو سیاسی اسپیس نہیں دیا جانا چاہیے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کو نکالنے کے لیے یہ کڑوی گولی نگلنے پڑے گی۔

 نون لیگ کی رہنما عظمی بخاری نے موجودہ صورتحال پر اپنا نقطہ نظر دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرا ذاتی خیال ہے کہ جن لوگوں نے سیاسی وفاداریاں بدلنے ہیں، ان کو سیاسی جگہ نہیں ملنی چاہیے اور سیاسی جماعتوں کو اپنی صفوں میں آنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کو ہٹانے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی بظاہر راستہ نہیں ہے۔ تاہم ایسے لوگوں کو لینے کے لئے کوئی ضابطہ چاہیئے۔ اگر کچھ ارکان دباؤ یا خوف کی وجہ سے اپنی جماعت کو چھوڑ گئے تھے اور اب واپس آنا چاہتے ہیں تو سیاسی جماعتوں کو ان کو واپس لے لینا چاہیے لیکن جو عادی مجرم ہیں اور جنہوں نے سیاسی نظام کو ہمیشہ تباہ کیا ہے ان کو سیاسی جماعتوں میں واپس نہیں لیا جانا چاہیے۔‘‘

بخاری نے اس بات کی تردید کی کہ مسلم لیگ نے کسی کو رشوت لالچ دی ہے، ’’جب اوپن بیلٹ کی بات ہو رہی تھی تو ہم سے لوگوں نے رابطہ کیا تھا لیکن ہم نے ان سے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا بلکہ ہم نے ان سے یہ کہا تھا کہ ہم ان مسائل پر غور کریں گے۔ ان ارکان قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ اگر ہم آپ کا ساتھ دیں گے تو یقینا ہمیں اپنی نشستوں سے استعفیٰ دینا پڑے گا تو اس صورت میں ہمارا سیاسی مستقبل کیا ہوگا تو انہوں نے پارٹی کا ٹکٹ مانگا تھا لیکن وعدہ نہیں کیا گیا بلکہ صرف یہ کہا گیا کہ اس میں غور کیا جائے گا۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: سینیٹ سرکس اور جادوئی آئینہ 

پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی چودھری منظور کا کہنا ہے کہ ایسے سیاسی عناصر کی حوصلہ شکنی کی جانا چاہیے، جو سیاسی وفاداریاں بدلتے ہیں، "لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارا سلسلہ شروع کس نے کیا یہ پی ٹی آئی ہے، جس نے سب سے پہلے ہمارے بندے توڑنے کی کوشش کی اور پھر نون لیگ کے بندے توڑنے کی کوشش کی۔ ہمارے بندے تو واپس آگئے لیکن دوسرے کے نہیں آئے۔ تو اگر آپ سیاست میں کوئی ایسا کام کریں گے تو اس کا کسی نہ کسی مرحلے پہ جواب دینا پڑے گا۔‘‘

پیسہ نہیں چلا

ملک کے کئی حلقوں میں تاثر ہے کہ ارکان اسمبلی کو رشوت دی گئی ہے یا ان کو لالچ دی گئی ہے لیکن چودھری منظور اس تاثر کو مکمل طور پر کرتے ہیں، "پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو حفیظ شیخ کے حوالے سے تحفظات تھے۔ وہ اسے مغرور سمجھتے ہیں۔ وہ بندہ لوگوں سے نہ ہاتھ ملاتا ہے نہ باتیں کرتا ہے یہاں تک کہ وہ ارکان اسمبلی کو جانتا بھی نہیں ہے۔ ایک رکن قومی اسمبلی کی اپنے حلقے میں بہت اہمیت ہوتی ہے اور اسے اپنے حلقے کے مسائل حل کرنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ تو پی ٹی آئی کے یہ ارکان اسمبلی نے اپنی تحفظات اور شکایات کی وجہ سے ہم سے رابطہ کیا تھا۔‘‘

Wahlen in Pakistan I  Bilawal Bhutto Zardari
اپوزیشن اتحاد نے عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

عمران خان کے الزامات درست

 تاہم پاکستان میں کئی ایسے حلقے ہیں جو عمران خان کے الزامات کو صحیح سمجھتے ہیں اور ان کا یہ خیال ہے کہ جو سینیٹ کے الیکشن ہوئے ہیں اس میں پیسہ و رشوت چلی ہے۔

 سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا ، "میرے خیال سے شاہد خاقان عباسی کا بیان، آصف علی زرداری کا بیان، مریم نواز کا بیان، الیکشن کمیشن کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے اور یہ بالکل ایک رشوت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ رشوت کی تعریف کس طرح کرتے ہیں آپ لالچ دے کر یا کوئی وعدہ کر یا لوگوں کو ترغیب دے کر بھی تو رشوت دے سکتے ہیں جب آپ لوگوں کو یہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کو اسمبلی کا ٹکٹ دیں گے تو اس کا مطلب ہے آپ لوگوں کو ترغیب دے رہے ہیں۔ یہ بالکل لوگوں کو رشوت دینے کے مترادف ہے اور الیکشن کمیشن کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔‘‘

پاکستان میں کئی حلقے الیکشن کمیشن کو اس بات پر بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ اس نے ویڈیو لیک ہونے کے باوجود یوسف رضا گیلانی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا اور نہ ہی ان کے بیٹے کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے: سینیٹ انتخابات: گیلانی کی جیت موضوع بحث

 جسٹس وجیہہ اس کو الیکشن کمیشن کی ایک بہت بڑی ناکامی سمجھتے ہیں، "سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ویڈیو لیک ہوئی اور ویڈیو میں جو لوگ موجود ہیں، انہوں نے اس کی تصدیق کی۔ تو الیکشن کمیشن نے گیلانی کو نااہل کیوں نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن کو علم تھا کہ پچھلی دفعہ بھی سینیٹ کے الیکشن میں پیسہ چلا، الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ قوانین بنائے، جس سے کرپٹ پریکٹسز کو روکا جا سکے۔ سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کو کہا تھا کہ وہ تمام کوششیں بروئے کار لائے۔ لیکن الیکشن کمیشن نے ایسا کچھ نہیں کیا۔‘‘

بے بنیاد الزامات

  معروف قانون دان لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ عمران خان کے الزامات بھونڈے اور بے بنیاد ہیں، "عمران خان کے اپنے لوگ اس کے خلاف ہیں اور عمران خان غصے میں ہے کیونکہ فوج نے اس کی مدد نہیں کی اگر فوج مدد کرتی تو یہ جیت جاتا۔ اب وہ الیکشن کمیشن پر غصہ نکال رہا ہے کیونکہ فوج پر تو غصہ نکال نہیں سکتا۔‘‘

ناقدین کا خیال ہے کہ اگر حکومت کے الیکشن کمیشن پر حملے جاری رہے تو چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے وقت بھی سیاسی ماحول گرم رہے گا اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں آنے والے انتخابات میں بھی یہ مسئلہ درپیش رہے گا کہ الیکشن کمیشن پر بھروسہ کیا جائے یا نہ کیا جائے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید