1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سينيٹ اليکشن: کیا ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
4 مارچ 2021

سینیٹ کے انتخابات کے نتائج کے بعد ملک میں سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آ گئی ہے اور ساتھ ہی کچھ حلقوں کو سیاسی عدم استحکام کا خدشہ ستا رہا ہے۔ پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کی ملاقاتیں اور تمام بڑے شہروں میں اجلاس جاری ہیں۔

https://p.dw.com/p/3qCYR
Pakistan Imran Khan Rede an die Nation
تصویر: Reuters/A. Soomro

ممکنہ سیاسی عدم استحکام کے خدشات نے کاروباری طبقے کو ایک بار پھر مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ملک کے مختلف اسٹاک ایکسچینجز میں انڈیکس گرتا ہوا دکھائی دیا اور مندی کا رجحان ديکھنے ميں آيا۔ سرمایہ کاروں نے اپنے ہاتھ روک لیے ہيں۔ ماضی میں سرمایہ کاروں کا یہ رویہ سیاسی عدم استحکام کی طرف اشارہ کرتا رہا ہے۔

وزير اعظم عمران خان جمعرات کی شام قوم سے خطاب کریں گے جس کا نہ صرف دارالحکومت میں بے چینی سے انتظار کیا ہے بلکہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی عوام کی نظریں اس خطاب پر ہیں۔

سیاسی عدم استحکام کا خطرہ

عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کر دیا ہے اور کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اس اعلان کے بعد ملک ایک غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے۔ معروف تجزیہ نگار میجر جنرل اعجاز اعوان کا کہنا ہے کہ جب تک عمران خان اعتماد کا ووٹ نہیں لیتے، ملک میں غیر یقینی صورت حال برقرار رہے گی اور اگر وہ تحریک عدم اعتماد میں ناکام ہوجاتے ہيں، تو ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''عمران خان کی ناکامی کی ممکنہ صورت میں حکمران جماعت متفقہ طور پر کوئی امیدوار میدان میں نہیں لا سکتی۔  یہی صورت حال پی ڈی ایم کے ساتھ ہے۔ نواز شریف بلاول کو وزیر اعظم کے طور پر تسلیم نہیں کريں گے اور پیپلز پارٹی نون لیگ کے کسی اميدوار کو وزیراعظم کے طور پر تسلیم نہیں کرے گی۔ یہی حال جمیعت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کا بھی ہے۔ تو پی ڈی ایم کا بھی شیرازہ بکھر جائے گا۔ ایسی صورت میں یقیناً ملک عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔‘‘

ایمرجنسی کا امکان

تجزیہ نگار میجر جنرل اعجاز اعوان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات کا امکان ہے کہ اگر آئین میں ایمرجنسی کی گنجائش ہے، تو ہو سکتا ہے کہ صدر ایمرجنسی نافذ کرديں اور ملک میں کوئی قومی حکومت بنا دی جائے جو معاشی، انتخابی اور سیاسی اصلاحات کرے اور اس حوالے سے آئین میں ترامیم کرے۔‘‘

سینیٹ انتخابات: گیلانی کی جیت موضوع بحث

سینیٹ انتخابات، سیاسی بھونچال

سیاسی مبصر حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ ان انتخابات کے بعد صورت حال جوں کی توں نہیں رہ سکتی۔ یا تو عمران خان کو استعفیٰ دینا پڑے گا یا پھر ان کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا اور دونوں صورتوں میں صورت حال غیر یقینی رہے گی۔

Pakistan Islamabad Senat
تصویر: Imago/Xinhua

ہارس ٹریڈنگ

سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو مزید ووٹ ملنے چاہیے تھے۔ کئی حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب پی ڈی ایم کی پارلیمان ميں اتنی نشتیں نہیں ہیں، تو زرداری یہ دعوی کيسے کر رہے ہیں۔ اس سے کئی حلقوں میں یہ تاثر پايا جا رہا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے دوران ہارس ٹریڈنگ ہوئی ہے۔

حبیب اکرم کا کہنا ہے کے حفیظ شیخ کو 172 ووٹ ملنے چاہیے تھے۔ ''پی ٹی آئی کی خاتون ارکان کو 172 ووٹ ملے لیکن حفیظ شیخ کو اتنے ووٹ نہیں ملے، جس کا مطلب ہے کہ سات ووٹ کم ہوئے۔ اگر وہ سات ووٹ کم ہوئے تو یا تو ہارس ٹریڈنگ ہوئی ہے یا کم از کم پی ٹی آئی کے لوگوں نے سیاسی وفاداریاں بیچیں۔‘‘

دوسری جانب خورشید شاہ سمیت حزب اختلاف کے کئی رہنما ان الزامات کی تردید کر رہے ہیں۔

کوئی فرق نہیں پڑے گا

سینیٹ انتخابات کے بعد حزب اختلاف حکمران جماعت کے زوال کا جشن منا رہی ہے اور دعوی کر رہی ہے کہ 'کپتان‘ کی جماعت کا وقت ختم ہونے کو ہے۔ تاہم لاہور سے ہی تعلق رکھنے والے دوسرے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ ''یہ صرف ایک سیٹ کا معاملہ ہے اور اس سے پی ٹی آئی کو بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ جہاں تک یوسف رضا گیلانی کا تعلق ہے، وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں، وہ اسٹیبلشمنٹ کی لائن کو ٹو کریں گے اور اسٹیبلشمنٹ سے کوئی لڑائی مول نہیں ليں گے۔ میں نہیں سمجھتا کہ حکومت کے لیے کوئی مشکلات ہوں گی۔‘‘

پی ٹی آئی مطمئن

پی ٹی آئی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''سینیٹ کے انتخابات کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی ہے، اس پر غور و فکر کے ليے پارٹی کا اجلاس ہو رہا ہے اور جلد ہی پتا چل جائے گا کہ کن لوگوں نے اپنی وفاداریاں بیچیں لیکن ہمیں اس بات پر پورا اطمینان ہے کہ خان صاحب تحریک عدم اعتماد میں کامیاب ہوں گے اور ان کے خلاف حزب اختلاف کی کوششيں ناکام ہو گئی ہيں۔‘‘

پاکستان میں سن 1988 کے بعد یہ دوسرا موقع ہوگا کہ ملک کے برسراقتدار وزیر اعظم کو عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے پہلے بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا تھا، جو اس وقت ناکام ہو گئی تھی۔

لاہور میں پاکستان کی پہلی میٹرو سروس کا آغاز