1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنرل اسمبلی اجلاس: شاہ محمود قریشی کتنے کامیاب رہے؟

28 ستمبر 2018

پاکستان اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کو دنیا بھر کے دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی اور معاشی تعلقات ازسرنو استوار کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/35dfq
USA New York - 73. UN Generalversammlung - Pakistans Außenminister Shah Mehmood Qureshi
تصویر: Pakistan Embassy/Washington

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایک جانب تو امریکا سے تعلقات بہتر کرنے کے لیے کوشاں ہیں تو دوسری جانب وہ اقوام عالم کو جنوبی ایشیاء میں امن کی کوششوں کے خلاف بھارت کے مبینہ منفی رویے سے بھی آگاہ کر رہ ےہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا جانے والے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے برطانیہ، یوپی یونین، سعودی عرب، چین، اور جاپان سمیت دیگر ممالک کے وزرا خارجہ اور دیگر عہدے داروں سے ملاقاتیں کیں۔ قریشی کے مطابق ایک عشائیہ کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ان کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے حوالے سے وزیر خارجہ قریشی نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے امریکی صدر کو تجویز دی کہ پاک امریکا تعلقات کو ازسرنو استوار کیا جانا چاہیے اور صدر ٹرمپ نے ان کی اس تجویز سے نہ صرف اتفاق کیا بلکہ اس حوالے سے اپنے ارادے کا اظہار بھی کیا۔ اسی عشائیے میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ملاقات ہوئی۔ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ان کی مائیک پومپیو سے باضابطہ ملاقات دو اکتوبر کو طے ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے حاشیے میں ہونے والی ملاقاتوں کے دوران افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی سفیر زلمے خلیل زاد سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں جنوبی ایشیا کے لیے امریکا کی پرنسپل ڈپٹی سیکریٹری آف اسٹیٹ ایلس ویلز بھی موجود تھیں۔ وزیر خارجہ قریشی نے پاکستان کی جانب سے افغانستان میں قیام امن کے لیے ہر قسم کے سیاسی اقدامات کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے افغانستان کا دورہ کیا جو نئی حکومت کی جانب سے افغانستان میں امن کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کو اپنے امن و ترقی کے لیے بھی ضروری سمجھتا ہے۔ قریشی کے مطابق، ’’پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ افغانستان کے مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں، لہذا ہم امریکا کی جانب سے اس مسئلے کے سیاسی حل کی کوششوں کی تائید کرتے ہیں۔‘‘

شاہ محمود قریشی نے نیویارک میں سارک ممالک کے وزرائے خارجہ کے ایک غیر رسمی اجلاس میں بھی شرکت کی۔ اجلاس کا انعقاد نیپال کے وزیر خارجہ کی جانب سے کیا گیا تھا جو سارک چیئرمین بھی ہیں۔ اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی شریک تھیں۔ تاہم دنوں وزرائے خارجہ کے مابین ملاقات نہیں ہوئی اور سوراج اپنی تقریر کے بعد اجلاس سے اٹھ کر چلی گئیں۔ بھارتی وزیر خارجہ کے رویے پر میڈیا کے سامنے ردعمل دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بھارت کے اسی رویے کے باعث سارک ممالک اور خطے کے 107 بلین لوگ یرغمال بنے ہوئے ہیں۔

پاکستانی وزیر خارجہ کے مطابق سارک کے سیکریٹری جنرل نے تنظیم کی کارکردگی سے متعلق جو رپورٹ پیش کی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس تنظیم کے قیام کے مقاصد کے حصول میں پیش رفت نہیں ہوپائی۔ قریشی کا کہنا تھا، ’’یہ فورم پورے خطے کی بہتری کے لیے کارآمد ہوسکتا تھا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ سارک کی ترقی میں صرف ایک ملک کا رویہ رکاوٹ بنا ہوا ہے، بھارتی وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں علاقائی تعاون کی بات کی جس پر میرا سوال یہ ہے کہ علاقائی تعاون ممکن کیسے ہوگا جب خطے والے مل بیٹھنے کو تیار ہیں مگر آپ کا رویہ اس میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے آسیان، یورپین یونین اور ایسے دیگر تنظیموں کی مثالیں دیتے ہوئے کہا، ’’بھارتی سیکریٹری خارجہ نے کہا ہے کہ آئندہ سارک اجلاس اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک موافق ماحول نہیں ہوا۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ موافق ماحول کا ترجمہ کون کرے گا؟‘‘

تجزیہ کاروں کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت نہ کرکے جو موقع ضائع کیا تھا اسے شاہ محمود قریشی نے پاکستان کے لیے انتہائی سود مند بنالیا ہے، جس کے اثرات مستقبل میں نمودار ہوں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں