1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں طالبان کی کامیابیاں، ’کیا قصور پاکستان کا ہے‘

15 اگست 2021

بیس سالہ افغان وہاب نے عسکری تربیت پاکستانی علاقے پاڑہ چنار میں حاصل کی تاکہ وہ طالبان کے شانہ بشانہ لڑ سکے۔ وہ اپنے بچپن کے دوستوں سے متاثر ہو کر انتہا پسندی کی طرف راغب ہوا۔

https://p.dw.com/p/3ytqd
Afghanistan Ghazni | Taliban Kämpfer
تصویر: Gulabuddin Amiri/AP Photo/picture alliance

وہاب نے افغان سرحد سے متصل پاکستانی پہاڑی علاقے پاڑہ چنار میں واقع ایک عسکری تربیتی کیمپ میں فوجی تربیت حاصل کی۔ وہاب کے ایک رشتہ دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہاب ایک دن اچانک گھر سے غائب ہو گیا اور افغان طالبان کے ساتھ مل کر لڑنے کی خاطر تربیت کے لیے پاکستان چلا گیا۔

بہت سے افغان شہریوں کا الزام ہے کہ طالبان کی حالیہ کامیابیوں  کی وجہ یہی ہے کہ ان جنگجوؤں نے پاکستان کی سرزمین کا استعمال کرتے ہوئے طاقت جمع کی اور اب غیر ملکی افواج کے انخلا کے عمل کے دوران ہی ملک کے ایک بڑے حصے پر قابض ہو گئے ہیں۔

اسلام آباد حکومت پر بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی خاطر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔ دوسری طرف ناقدین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں زخمی ہونے والے جنگجوؤں کا علاج پاکستانی سرزمین پر ہو رہا ہے۔ ان جنگجوؤں کے اپنے بچے اور کاروبار پاکستان میں ہی ہے جبکہ انہیں مختلف طریقوں سے مدد بھی پہنچائی جا رہی ہے۔

نئے مہذب طالبان

پاکستان کے کچھ سیاستدانوں نے ان طالبان میں ایک نئی تقسیم پیدا کرتے ہوئے کچھ کو 'نئے مہذب طالبان‘ بھی قرار دے دیا ہے۔ اسی تناظر میں افغان صوبہ ہیرات کے ایک جنگی سردار اسماعیل خان نے افغان سرزمین پر طالبان کی تازہ پرتشدد کارروائیوں کا ذمہ دار پاکستان کو ہی قرار دے دیا ہے۔

اپنے علاقوں کا دفاع کرنے والے اسماعیل خان کے بقول، ''میں کھلے عام کہتا ہوں کہ یہ جنگ طالبان اور کابل حکومت کے مابین نہیں بلکہ یہ پاکستان کی افغان قوم کے خلاف جنگ ہے۔ طالبان صرف ان (پاکستان) کے لیے بطور غلام کام کر رہے ہیں۔‘‘

چمن سپین بولدک سرحد بند، مسافر پریشان

حکومت پاکستان نے بارہا کہا ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کی حکومت نہیں چاہتی تاہم یہ ایک ایسا بیان ہے، جس پر افغان عوام اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسلام آباد کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب مزید افغانستان کو 'کلائنٹ اسٹیٹ‘ کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا، جسے بھارت کے خلاف استعمال کرنے کے لیے رکھا جائے۔ حکومت پاکستان نے دہرایا ہے کہ یہ سب باتیں اب ماضی کا حصہ بن چکی ہیں۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان بھی متعدد مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے خواہاں ہیں اور یہ نہیں چاہتے کہ طالبان عسکری زور پر کابل کا کنٹرول سنبھال لیں۔

بین الاقوامی کمیونٹی بھی شک کا شکار

نہ صرف افغان عوام بلکہ بین الاقوامی کمیونٹی بھی پاکستان کے ان بیانات کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ نے افغانستان پر ایک میٹنگ کا انتظام کرنے کی پاکستانی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔

یہ شکوک اس وقت زیادہ گہرے ہوئے، جب افغان فائٹر کے طور پر ہلاک ہونے والے ایک جنگجو کو پاکستان میں دفنایا گیا۔ اس تدفین کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر بھی جاری کی گئیں، جن میں طالبان کے پرچم بھی لہرائے جا رہے تھے۔

افغانستان سے متصل پاکستانی علاقے چمن میں ایک ڈاکٹر نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ انہوں نے افغانستان میں لڑنے والے زخمی جنگجوؤں کا چمن میں علاج کیا ہے جبکہ زیادہ زخمی جنگجوؤں کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ہسپتالوں میں بھی منتقل کیا گیا ہے۔ نام مخفی رکھنے کی شرط پر اس ڈاکٹر کا یہ بھی کہنا تھا کہ کچھ زخمی جنگجو کراچی بھی منتقل کیے گئے ہیں۔

افغانستان سے متصل سرحدوں پر باڑ، ٹی ٹی پی کے لیے مسئلہ؟

گزشتہ ماہ پشاور کے نواح میں واقع دارالعلوم احیائے اسلام نامی مدرسے کو اس لیے بند کر دیا گیا تھا کیونکہ اس مدرسے کے مولوی کے بھتیجے کی لاش افغانستان سے واپس لائی گئی تھی۔ افغان طالبان کے ساتھ لڑنے والے اس پاکستانی کی شاندار انداز میں آخری رسومات ادا کی گئی تھیں۔ اس مولوی نے بھی کھلے عام اعتراف کیا کہ انہوں نے اسے افغانستان میں 'جہاد‘ کے لیے روانہ کیا تھا۔

سخت اقدامات کی ضرورت ہے

انڈیپنڈنٹ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹیڈیز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عامر رانا کے بقول جب تک حکومت 'جہادیوں‘ کے خلاف مکمل پابندیاں عائد نہیں کرتی، تب تک ملک کو بین الاقوامی دباؤ کا سامنا رہے گا۔

وہاب کے رشتہ دار کے مطابق حکومتی پابندیوں کے باوجود پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی سڑکوں اور مساجد میں ابھی تک جنگجوؤں کی بھرتی کا عمل جاری ہے۔

ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب یہ ملکی مفاد میں تھا، تب اسلام آباد حکومت نے انتہا پسندانہ جذبات کو ہوا دیاور جنگجوؤں کے ساتھ مل کر کام بھی کیا۔ اس تناظر میں سوویت جنگ کا حوالہ سب سے اہم ہے۔ افغان جنگ کے بعد طالبان بھی اسی کیٹیگری میں شامل کیے جاتے ہیں۔ ان جنگجوؤں میں حقانی گروپ کا نام سرفہرست آتا ہے، جو اپنے دور میں طالبان کا انتہائی اہم گروپ تھا۔

واشنگٹن میں قائم ولسن سینٹر برائے جنوبی ایشیا سے وابستہ مائیکل کوگلمان کے بقول اس وقت افغان طالبان کا پلڑا بھاری ہے اور پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو مزاحمت بھی کر سکتے ہیں، ’’طالبان کا کلیہ بہت واضح ہے، جب وہ انہیں برتری حاصل ہے تو وہ پیچھے کیوں ہٹیں۔‘‘

ع ب/ ع ت (اے پی)