1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

افغانستان میں طالبان کی سرگرمیاں: پاکستان کے لیے مشکلات

عبدالستار، اسلام آباد
11 اگست 2021

امریکا نے افغانستان کے پڑوسی ممالک سے کہا ہے کہ وہ جنگ زدہ ملک میں کسی ایسی حکومت کو تسلیم نہ کریں، جو بزور طاقت کابل پر مسلط کی جائے۔

https://p.dw.com/p/3yqb6
Konflikt in Afghanistan | Taliban auf dem Vormarsch
تصویر: Mohammad Asif Khan/AP/dpa/picture alliance

 پاکستان میں کئی ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ بیان پاکستان کو بھی ایک تنبیہ ہے، جو افغان طالبان کے قریب سمجھا جاتا ہے اور جس پر ان کی حمایت کے الزامات بھی عائد ہیں۔

یہ بیان ایک ایسے وقت دیا گیا ہے جب پاکستان خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر صورت حال پر بات چیت کررہا ہے۔ اس نے اس سلسلے میں چین و روس سے بھی مشاورت کی ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اس بیان سے پاکستان کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوجائیں گی کیونکہ طالبان نو صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر چکے ہیں اور ممکنہ طور پر وہ کابل پر بھی قبضہ کر سکتے ہیں۔

واضح پیغام

پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ امریکا کا میسج واضح طور پر پاکستان کے لیے ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بت چیت کرتے ہوئے کہا،'' واشنگٹن کی طرف سے یہ جو پیغام آیا ہے کہ اگر طالبان طاقت کے بل بوتے پر قابض ہوتے ہیں، تو پڑوسی ممالک اس کو تسلیم نہ کریں یہ پیغام واضح طور پر پاکستان کے لیے ہے۔ کیونکہ پاکستان نہ صرف خود انہیں تسلیم کرنے کی تیاری کر رہا ہے، جو کہ میرے خیال میں بہت مشکل ہو گا، بلکہ روس، چین اور  دوسرے ممالک کو بھی اس بات پر قائل کر رہا ہے کہ وہ طالبان دہشت گردوں کی حکومت کو تسلیم کرلیں۔ پاکستانی میڈیا ، سیاستدان اور نام نہاد ریٹائرڈ فوجی جرنیل، جو تجزیہ نگار بن کر میڈیا پر آ رہے ہیں، ان سب کی یہ رائے ہے کہ طالبان افغانستان پر قبضہ کرلیں گے وہ ان کی فتوحات کی نوید سنا رہے ہیں اور سب سے زیادہ طالبان دہشت گردوں کی فتوحات پر پاکستان کو ہی خوشی ہے۔‘‘

امریکی وزیر دفاع کی پاکستانی آرمی چیف سے بات چیت

Infografik - Wer kontrolliert Afghanistan - UR

پاکستان کے لئے دوہری مشکل

تاہم ڈاکٹر سرفراز کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے ایسا کرنا انتہائی مشکل ہوگا کیونکہ 90 کی دہائی میں سعودی عرب اور متحدہ امارات پاکستان کے ساتھ تھے اور انہوں نے مل کر طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا۔  ڈاکٹر سرفراز کہتے ہیں، '' اس بار پاکستان کے لیے بہت مشکل ہو گا کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو بین الاقوامی طور پر وہ تنہا ہو جائے گا اور اگر اس نے تسلیم نہیں کیا تو پاکستان کی مذہبی جماعتوں کا حکومت پر شدید دباؤ ہوگا کہ وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لے۔ تسلیم کرنے کی صورت میں بھی پاکستان میں دہشت گردی بڑھے گی اور پاکستان کا سماجی ڈھانچہ تباہی کا شکار ہوگا۔ تو طالبان کے قبضے کی صورت میں پاکستان پر بہت برا وقت آئے گا اور وہ اندرونی اور بیرونی طور پر دباؤ کا شکار رہے گا۔‘‘

Afghanistan | Konflikte | Kundus in Händen der Taliban
تصویر: Abdullah Sahil/AP Photo/picture alliance

سخت ترین پابندیوں کا امکان

معروف مصنفہ اور دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ پیغام پاکستان کے لیے ہی ہے اور اگر پاکستان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتا ہے، تو اسلام آباد پر سخت ترین پابندیاں لگیں گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پاکستان میں طالبان کی فتوحات پربغلیں بج رہی ہیں اور اس بات کی نوید سنائی جارہی ہے کہ طالبان تبدیل ہوگئے ہیں حالانکہ وہ تمام طرح کی غیر انسانی سزا ئیں دے رہے ہیں۔ وہ بالکل نہیں بدلے لیکن ہمارے وزیر خارجہ انہیں ذہین قرار دے رہے ہیں اور دنیا سے کہہ رہے ہیں کہ ان سے بات چیت کی جائے۔ تو ایک طریقے سے ہم نے طالبان کی تعریفوں کے پل باندھ کر انہیں تسلیم کرہی لیا ہے۔‘‘

امریکی فوج کے لیے افغانستان میں کام کرنے والے کانٹریکٹرز اب دبئی میں’قید‘

عائشہ صدیقہ کے بقول لیکن انہیں تسلیم کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہوگا کہ پاکستان پر سخت ترین پابندیاں لگیں گی۔ وہ کہتی ہیں، ''ایشیا پیسیفک گروپ پہلے ہی پاکستان پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ کابل پر قبضہ کی صورت میں نہ صرف طالبان پر بدترین پابندیاں لگیں گی بلکہ پاکستان پر بھی معاشی اور مالی پابندیاں لگیں گی، جس سے ملک کی معیشت بہت خراب ہو جائے گی اور مالی مشکلات بہت زیادہ بڑھ جائیں گے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کا اثر رسوخ مزید بڑھ جائے گا جب کہ طالبان کو تسلیم نہ کیے جانے پر ٹی ٹی پی، جو طالبان کے ہی نظریاتی بھائی ہیں، پاکستان کے خلاف مزید اقدامات کریں گے۔‘‘

Afghanistan Faizabad
تصویر: Maurizio Gambarini/dpa/picture alliance

مشکلات بڑھیں گی لیکن آسانیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں

پاکستان شکایت کرتا رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی اور دوسرے ممالک بلوچ علیحدگی پسندوں کو اور ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو اسلام آباد کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ طالبان کے کابل پر قبضے کی وجہ سے پاکستان کے لیے مشکلات بڑھیں گے لیکن سکیورٹی کے نقطہ نظر سے پاکستان کے لیے آسانیاں بھی پیدا ہونگی۔  کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت کا کہنا ہے کہ پاکستان کو پابندیوں سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ ان ہوں نے کہا،'' اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کابل پر طالبان کا قبضہ ہوتا ہے تو پاکستان کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔ ممکنہ طور پر پابندیاں لگ سکتی ہیں جبکہ طالبان بھی اس بات سے ناراض ہو سکتے ہیں کہ ہم ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کر رہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو بجائے اس کے کہ وہ خود صرف طالبان کو تسلیم کرے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ روس، چین، وسطی ایشیا اور ایران بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم کریں اگر اتنی بڑی تعداد میں خطے کے ممالک طالبان کی حکومت کو تسلیم کریں گے تو پھر امریکا کچھ نہیں کر سکے گا۔‘‘

افغان رہنماؤں کو اپنی جنگ خود ہی لڑنی ہو گی، جو بائیڈن

ممکنہ پابندیوں سے نمٹنے کے لیے ڈاکٹر طلعت اے وزارت کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چین سے مزید تعلقات بہتر کرنے چاہئیں اور چین سے معاشی فوائد لینے چاہییں۔ ان کے بقول،'’جب امریکی پالیسی ایسی ہی ہے کہ ہمارے پاس چین کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں رہتا تو پھر ہم چینی کیمپ میں مکمل طور پر کیوں نہ جائیں۔ یہ امریکا ہے جو پاکستان کو اس بات پر مجبور کررہا ہے کہ وہ مکمل طور پر چینی کیمپ میں چلا جائے توہمیں اس کیمپ میں جاکر اپنے معاشی مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے تاکہ ہماری معیشت تباہی سے دوچار نہ ہو۔‘‘

افغانستان سے متصل سرحدوں پر باڑ، ٹی ٹی پی کے لیے مسئلہ؟