1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی غیر ملکی طالب علموں کا پسندیدہ ترین ’نان انگلش‘ ملک

شمشیر حیدر بین نائٹ کے ساتھ
16 اگست 2019

قومی زبان کے طور پر انگریزی نہ بولنے والے ممالک کی فہرست میں بین الاقوامی طالب علموں کی پسندیدہ ترین منزل کی حیثیت سے فرانس کو پیچھے چھوڑ کر جرمنی اب پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ طلبہ اب جرمنی کا رخ کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3O25w
Ausländische Studenten in Deutschland Universität Aussicht auf bessere Bildungschancen
تصویر: picture alliance/dpa

انگریزی زبان میں تعلیم کے باعث دنیا بھر میں غیر ملکی طالب علموں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے عام طور پر امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کا رخ کرتی ہے۔ 
انگریزی زبان نہ بولنے والے ممالک میں فرانس غیر ملکی طالب علموں کی سب سے من پسند منزل تھا لیکن اب فرانس کی جگہ جرمنی سرفہرست آ گیا ہے۔ یہ بات اعلیٰ تعلیم سے متعلق جرمن ادارے (DAAD) نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتائی ہے۔ 
اس رپورٹ میں سن 2016 کے اعداد و شمار (تازہ ترین مکمل دستیاب ڈیٹا) کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق سن 2016 میں دو لاکھ باون ہزار سے زائد غیر ملکی طالب علموں نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جرمنی کا رخ کیا۔ فرانسیسی جامعات میں اس عرصے کے دوران قریب دو لاکھ چھیالیس ہزار غیر ملکی طالب علم زیر تعلیم تھے۔
اعلیٰ تعلیم سے متعلق اس جرمن ادارے نے اپنے سروے میں بین الاقوامی طالب علموں سے ہائر ایجوکیشن کے لیے جرمن یونیورسٹیوں کے انتخاب کی وجوہات بھی پوچھی تھیں۔

سروے میں شامل 83 فیصد طالب علموں کا کہنا تھا کہ ان کے فیصلے کی وجہ جرمنی میں پروفیشنل امکانات کا زیادہ ہونا ہے جب کہ 74 فیصد طالب علموں کے مطابق انہوں نے بین الاقوامی طور پر مسلمہ ڈگری کے حصول کے لیے کسی نہ کسی جرمن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔

مفت تعلیم بھی اہم وجہ
جرمنی کی زیادہ تر پبلک یونیورسٹیوں میں ٹیوشن فیس نہیں لی جاتی۔ DAAD کی اہلکار یولیا ہیلمان کے مطابق زیادہ تر غیر ملکی طالب علم اسی وجہ سے جرمنی کا رخ کرتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ہیلمان کا کہنا تھا، ’’اعلیٰ تعلیم کے لیے غیر ملکی طالب علموں کے پسندیدہ ممالک میں ٹیوشن فیس بھی بہت زیادہ لی جاتی ہے۔ جرمن جامعات کو دیگر ممالک کے ایسے تعلیمی اداروں پر ترجیح دینے میں کئی طالب علموں کے لیے جرمنی میں ٹیوشن فیس کا نہ ہونا بھی فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔‘‘
جرمنی کی وزیر تعلیم آنیا کارلیکزک نے ان اعداد و شمار پر خوشی کا اظہار کیا اور ملکی جامعات کو غیر ملکی طالب علموں کے لیے مزید پرکشش بنانے کے لیے اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
یولیا ہیلمان کے مطابق بھی بہتری کی کافی گنجائش موجود ہے۔ جرمنی میں زیر تعلیم 45 فیصد غیر ملکی طالب علم اپنی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے۔ اس حوالے سے ہیلمان کا کہنا تھا، ’’غیر ملکی طالب علموں کے لیے تعلیم مکمل نہ کر پانا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ زبان کے مسئلے کے علاوہ جرمنی میں تعلیم کا طریقہ کار اور مالی مسائل طالب علموں کے ڈراپ آؤٹ کی مرکزی وجوہات ہیں۔‘‘
گزشتہ ایک دہائی کے دوران اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی کا رخ کرنے والے غیر ملکی طالب علموں کی تعداد دوگنا ہوئی ہے۔ دوسری طرف حصول تعلیم کے لیے دیگر ممالک کا رخ کرنے والے جرمن طالب علموں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جرمن طالب علموں کی ایک تہائی تعداد ایسی ہے جو دیگر ممالک کی جامعات میں کم از کم ایک سمسٹر کے لیے ضرور پڑھنے جاتی ہے۔
جرمنی میں مقیم مہاجرین بھی زیر تعلیم
جرمن یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم غیر ملکیوں میں سے 42 ہزار طالب علم جرمنی میں بطور مہاجر مقیم ہیں۔ زیر تعلیم مہاجرین کا تعلق شام، افغانستان، ایران، عراق، نائجیریا، اریٹریا اور پاکستان سے ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں