1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب کا نیا وزیر اعلٰی کیوں منتخب نہیں ہو سکا؟

3 اپریل 2022

صوبہ پنجاب میں وزارت اعلٰی کا انتخاب نہ ہو سکنے کے بعد سیاسی بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ نئے وزیر اعلٰی کے انتخاب کے ليے بلایا جانے والا اسمبلی کا اجلاس بغیر کسی کارروائی کے آئندہ بدھ تک کے ليے ملتوی کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/49P39
Pakistan | pakistanische Politiker, die sich unter dem Bündnis von PDM in Lahore treffen
تصویر: Tanvir Shahzad/DW

وزیر اعلٰی کے انتخاب کے ليے بلایا جانے والا پنجاب اسمبلی کا اجلاس بغیر کسی کارروائی کے آئندہ بدھ تک کے ليے ملتوی کر دیا گیا۔ اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت ارکان اسمبلی کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہو سکنے کی وجہ سے مزید وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس اتوار کے روز بلایا گیا تھا۔ اس موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کيے گئے تھے۔ کسی رکن اسمبلی کو اپنا موبائل فون ایوان میں لے جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس اجلاس میں شرکت کے ليے پنجاب اسمبلی کے ارکان صبح سے ہی اسمبلی ہال میں پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔

پاکستانی صدر نے پارلیمان تحلیل کردی، نوے دن میں نئے انتخابات

ووٹنگ نہ ہوئی: صدر پارلیمان تحلیل کریں، عمران خان کی درخواست

سازش کے نام پر بحران کی سازش

اجلاس کی صدارت کرنے والے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے اجلاس کی کارروائی ابھی شروع ہی کی تھی کہ اپوزیشن اور حکومتی ارکان میں ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی۔ اس تصادم  کو وجہ بناتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر نے چند ہی منٹ پہلے شروع ہونے والے اجلاس کو 6 اپریل تک کے ليے ملتوی کر دیا۔ اس اجلاس کے شروع میں ہی معمول کے برخلاف اجلاس کی کوریج کرنے کے ليے آنے والے میڈیا کے نمائندوں کو اسمبلی کی بلڈنگ میں جانے سے روک دیا گیا۔ اس موقع پر اجلاس کی کارروائی کو میڈیا کی نظروں سے بچانے کے ليے اسمبلی کی پریس گیلری کو بھی تالا لگا کر بند کر دیا گیا تھا۔

بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزارت اعلٰی کے حکومتی امیدوار چوہدری پرویز الہی نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے کچھ لوگ اپوزیشن کی طرف چلے گئے تھے۔ جب پی ٹی آئی کے لوگ انہیں واپس لانے کے ليے گئے تو انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور یوں ہنگامہ آرائی شروع ہوئی۔ اسپیکر کے ليے اجلاس کو ملتوی کرنے کے علاوہ اور کوئی آپشن ہی نہ بچا تھا۔ ان کے مطابق آئین اپنے ساتھيوں کو واپس لینے سے نہیں روکتا۔

دوسری جانب اپوزیشن رہنماؤں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سب الیکشن سے فرار ہونے اور اپنی ناکامی کو چھپانے کے ایک طے شدہ حکومتی منصوبے کا حصہ تھا۔ ان کے بقول اجلاس ملتوی کرانے کے ليے میڈیا کو اسمبلی سے باہر رکھ کر ایوان میں ہنگامہ آرائی شروع کرانا حکومتی حکمت عملی کا ہی حصہ تھا۔

سٹی 42 کے گروپ ایڈیٹر اور ممتاز تجزیہ کار نوید چوہدری نے بتایا کہ شیڈول جاری ہونے کے بعد وزیر اعلٰی پنجاب کے انتخاب والے ون پوائنٹ ایجنڈے والے اجلاس کا اس طرح سے ملتوی ہونا ایک غیر قانونی اقدام  ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اجلاس ملتوی کرا کے بھی حکومتی امیدوار کو عملی طور پر کچھ خاص فائدہ ہونے کا امکان نہیں ہے بلکہ جو حالات اس وقت  دکھائی دے رہے ہیں ان سے لگتا یہی ہے کہ چند اور ارکان اسمبلی حکومتی صفحوں سے نکل کر اپوزیشن سے مل سکتے ہیں۔

اتوار کے روز ہونے والی ایک اہم پیش رفت میں پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور کو مبینہ طور پر حکومتی امیدوار چوہدری پرویز الہی کی حمایت نہ کرنے پر ہٹا کر پاکستان تحریک انصاف کے سابق سیکرٹری اطلاعات عمر سرفراز چیمہ کو پنجاب کا نیا گورنر پنجاب مقرر کر دیا گیا۔ اتوار کی سہ پہر لاہور میں ایک دھماکہ خیز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری محمد سرور کا کہنا تھا کہ ان پر وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے حوالے سے غیر آئینی اقدامات کرنے کے ليے دباو ڈالا گیا۔

پاکستان ميں سياسی بحران، اپوزيشن جماعتيں کيا کہہ رہی ہيں؟

اس موقع پر چوہدری محمد سرور نے بتایا  کہ پورے پاکستان نے دیکھا کہ نئے پاکستان میں پنجاب میں کیا تماشے ہوتے رہے اور عثمان بزدار کس طریقے سے نیا پاکستان بناتے رہے، ''پنجاب میں ہر تين مہینے بعد آئی جی، چیف سیکرٹری بدلا جاتا رہا اور ملازمتیں بکتی رہیں۔ ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کے پیسے دے کر اے سی اور ڈی سی لگ رہے ہوں۔ آج پورے پنجاب میں سڑکیں ٹوٹی پڑی ہیں، نچلی سطح پر رشوت کئی گنا بڑھ گئی ہے لیکن ہم پھر بھی اپنے دل پر پتھر رکھ کر عمران خان کے ساتھ کھڑے رہے۔‘‘

سابق گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے 184 لوگ ہیں جو پارٹی ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے لیکن ان میں سے عمران خان کو ایک بھی پسند نہیں آیا کہ وہ اسے وزیر اعلیٰ بنا سکیں۔ انہوں نے ایک ایسے شخص کو نامزد کیا جو پی ٹی آئی کا حصہ ہی نہیں تھا۔ ''یہ فیصلہ پی ٹی آئی کے 184 اراکین اسمبلی کے منہ پر طمانچہ ہے کہ ایک ایسے شخص کو نامزد کیا گیا، جو ساڑھے تين سال سے تحریک انصاف کو بلیک میل کرتا رہا، اس نے اپنے انٹرویوز میں وزیر اعظم کا تمسخر اڑایا، وزیر اعظم اس شخص سے بلیک میل ہوئے جس کے پاس اسمبلی میں صرف نو سیٹیں تھیں۔‘‘

اتوار کی شام اس رپورٹ کے فائل ہونے تک موصولہ اطلاعات کے مطابق اپوزیشن کے 198 ارکان ابھی تک وزير اعلی پنجاب کی پوزيشن کے ليے اپوزیشن کے امیدوار حمزہ شہباز کی قیادت میں پنجاب اسمبلی میں احتجاجی دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک اسمبلی کا احاطہ نا چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ نون لیگی رہنما خواجہ عمران نذیر نے الزام لگایا ہے کہ اسمبلی کی لائٹس اور پانی بند کیا جا رہا ہے جس سے ارکان کو وضو اور افطاری میں دشواری کا سامنا ہے۔ اس سے قبل ایک اور مسلم لیگی رہنما عطا تارڑ نے پنجاب اسمبلی میں وزارت اعلی کے انتخاب کو ملتوی کيے جانے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا تھا۔