1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشال خان قتل: پچیس ملزمان کی سزائے قید معطل، ضمانت پر رہائی

مقبول ملک اے پی
27 فروری 2018

پاکستان کی ایک اپیل کورٹ نے صوبے خیبر پختونخوا کے ایک یونیورسٹی طالب علم مشال خان کے مبینہ توہین مذہب کے باعث قتل کے جرم میں سزا یافتہ پچیس مجرموں کی سزائے قید معطل کر دی ہے۔ مشال خان کے خلاف الزام جھوٹا ثابت ہوا تھا۔

https://p.dw.com/p/2tQ89
مشال خان کو مردان یونیورسٹی کیمپس پر قتل کیا گیا تھاتصویر: Reuters/F. Aziz

خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور سے منگل ستائیس فروری کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق تئیس سالہ مشال خان مردان یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے طالب علم تھے اور انہیں اسی یونیورسٹی کے کیمپس پر اپریل دو ہزار سولہ میں بیسیوں مشتعل طالب علموں نے ان الزامات کے بعد مار مار کر ہلاک کر دیا تھا کہ وہ مبینہ طور پر توہین مذہب کے مرتکب ہوئے تھے۔

قتل کیس سے بری ہونے والوں کا استقبال تنقید کی زد میں

مشال خان قتل کیس، ایک مجرم کو سزائے موت، تیس کو سزائے قید

’مشال کے قتل کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جائے‘

بعد میں وسیع پیمانے پر کی گئی اعلیٰ سطحی تفتیش سے ثابت ہو گیا تھا کہ مشال خان کے خلاف لگائے گئے توہین مذہب کے الزامات قطعی بےبنیاد اور جھوٹے تھے۔ مشال خان کے قتل کے مقدمے میں ہری پور کی ایک ضلعی عدالت نے اسی مہینے ایک ملزم کو سزائے موت اور تیس دیگر کو جرمانے اور قید کی سزاؤں کا حکم سنایا تھا۔

Pakistan Beerdigung des ermordeten Studenten Mashal Khan
مشال خان کو ان کے آبائی شہر صوابی میں دفنایا گیا تھاتصویر: Getty Images/AFP/STR

ان میں سے پانچ ملزمان کو عمر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئی تھیں جبکہ باقی ماندہ پچیس ملزمان کے خلاف عدالت نے چار چار سال قید اور جرمانے کا حکم سنایا تھا۔

مشال خان قتل: چالیس روز بعد یونیورسٹی میں تعلیمی سلسلہ بحال

توہین مذہب، ایک اور شخص قتل، قاتل تین برقعہ پوش خواتین

اس ضلعی عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل پر اب جن پچیس ملزمان کی سزائے قید معطل کر دی گئی ہے، ان کی نمائندگی کرنے والے ایک وکیل سید اختر نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ عدالت نے ان دو درجن سے زائد ملزمان کے لیے سزائے قید کے فیصلے کو غیر مؤثر قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ ان ملزمان کو سنائی گئی قید کی سزائیں معطل کی جاتی ہیں اور جب تک ان کی اپیل پر فیصلہ نہیں ہوتا، انہیں ضمانت پر رہا بھی کر دیا جائے۔

ان 25 ملزمان کے وکیل صفائی سید اختر کے مطابق اس قتل کیس میں سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں پانے والے باقی تمام چھ ملزمان کو سنائی گئیں سزائیں ابھی تک اپنی جگہ مؤثر ہیں۔ ضلعی سطح پر اس مقدمے کی پہلی سماعت انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت میں ہوئی تھی۔

پاکستان: توہین رسالت کے قانون میں ممکنہ ترمیم پر اختلاف رائے

پاکستانی سیاسی جماعتوں میں انتہا پسند عناصر کی جگہ کیوں بنی

مشال خان کا قتل: دو مذہبی شخصیات کے خلاف نفرت انگیزی کی تفیتش

انسانی حقوق کی کئی پاکستانی اور بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق قریب دو سال قبل مردان میں مشال خان کا من گھڑت اور بے بنیاد افواہوں کے بعد مشتعل یونیورسٹی سٹوڈنٹس کے ہاتھوں قتل اس امر کا ایک اور واضح ثبوت تھا کہ پاکستان میں توہین مذہب کے خلاف متنازعہ قانون کا اکثر مسلمانوں اور غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف غلط استعمال کیا جاتا ہے اور اس صورت حال کا تدارک عرصہ ہوا لازمی ہو چکا ہے۔