1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قتل کیس سے بری ہونے والوں کا استقبال تنقید کی زد میں

8 فروری 2018

مشال خان قتل کیس میں عدم ثبوت کی بنیاد پر مقدمے سے رہائی  پانے والے افراد کا مردان پہنچنے پر پُر تپاک استقبال کیا گیا، جس پر  سوشل میڈیا پر خاصی بحث اور تنقید کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/2sM2m
Pakistan Proteste nach Lynchmord Student Mashal Khan
تصویر: picture-alliance/AP/F. Khan

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بری ہونے کے بعد مردان واپس پہنچنے والوں پر بنیاد پرست مذہبی جماعتوں کے اراکین کی جانب سے گل پاشی کی جا رہی ہے۔  ان ویڈیوز اور تصاویر کو دیکھ کر کئی لوگ بری ہونے والوں کے مشال خان کے قتل میں ملوث ہونے اور مذہبی جماعتوں کے کردار کے حوالے سے کئی سوالات اٹھا رہے ہیں ۔

مشال خان قتل کیس، ایک مجرم کو سزائے موت، تیس کو سزائے قید

پاکستان: توہین رسالت کے قانون میں ممکنہ ترمیم پر اختلاف رائے

سماجی کارکن جبران ناصر اپنی ٹوئیٹ میں وائرل ہونے والی اس ویڈیو کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بری ہونے والوں 26 افراد میں سے ایک جب مردان پہنچا تو وہاں نہ صرف اس نے مبینہ طور پر مشال خان کے قتل میں ملوث ہونے کا اقرار کیا بلکہ دوسروں کی بھی ایسا کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی۔

 

ٹوئٹر کے ایک صارف آصف اقبال نے اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ مذہبی جماعتیں کیوں بری ہونے والوں کے لیے جشن منا رہی ہے؟

 

یاد رہے کہ مشال خان عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے طالب علم تھے جنہیں گزشتہ برس اپریل میں یونیورسٹی کے احاطے میں ’توہین رسالت‘ کا الزام عائد کرکے قتل کر دیا گیا تھا۔ گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مشال خان قتل کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے ایک ملزم کو سزائے موت،پانچ کو پچیس پچیس سال قید و جرمانہ، پچیس ملزموں کوچار، چار سال قید و جرمانے کی سزا سنائی۔ جب کہ 26 ملزموں کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا