1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا یک قطبی، دو قطبی یا کثیر قطبی، نئی بحث

6 اگست 2012

ماہرین میں اس بات پر اختلافات پائے جاتے ہیں کہ چین کو حاصل ہونے والے عروج، روس کے پھر سے مضبوط تر ہوتے چلے جانے اور بھارت اور برازیل کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے نتیجے میں عالمی سیاسی منظر نامے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/15kf3
تصویر: BilderBox

ممتاز جرمن ماہر اقتصادیات ہیلمٹ رائزن نے یہ ہنگامہ خیز نظریہ پیش کیا ہے کہ ’دنیا پھر سے دو قطبی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے‘ اور یہ کہ نئے عالمی نظام کی یہ دو سپر طاقتیں امریکا اور چین ہیں۔ رائزن یورپ میں تنظیم برائے اقتصادی تعاون OECD کے ترقیاتی مرکز میں تحقیق کے شعبے کے ڈائریکٹر ہیں اور وہ ان خیالات کا اظہار جرمن انسٹی ٹیوٹ برائے ترقیاتی امداد کے ایک حالیہ اجتماع میں کر رہے تھے۔ اُن کے اس نظریے پر اس اجتماع میں ملکوں ملکوں سے آئے ہوئے کئی دیگر محققین نے تحفظات کا اظہار کیا۔ زیادہ تر محققین کا خیال یہ ہے کہ دنیا کا موجودہ نظام زیادہ سے زیادہ کثیر قطبی ہوتا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جہاں اس نئے نظام میں امریکا اور یورپی یونین ہیں، وہیں BRIC کہلانے والی ابھرتی معیشتیں برازیل، روس، بھارت اور چین بھی ہیں اور علاقائی طاقتیں ترکی، انڈونیشیا اور میکسیکو بھی۔

پروفیسر ڈاکٹر ہیلمٹ رائزن
پروفیسر ڈاکٹر ہیلمٹ رائزنتصویر: Helmut Reisen

فعال معیشتیں ان تمام ممالک کا امتیازی وصف ہیں اور وہ بین الاقوامی سیاست پر زیادہ سے زیادہ اثرات مرتب کرتی نظر آتی ہیں۔ DW.DE سے باتیں کرتے ہوئے رائزن نے کہا:’’ترقی کی دہلیز پر کھڑے یہ ممالک اپنی اقتصادی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ امریکیوں کے سیاسی اور اقتصادی مقاصد کی جانب غیر جانبدارانہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے بھی عالمی نظام کو بدل رہے ہیں۔‘‘

اپنے انٹرویو میں رائزن نے کہا کہ امریکا اور مغربی دنیا کی مخالفت ان ابھرتی ہوئی معیشتوں کو یکجا کرنے والا واحد عنصر ہے۔ جیسے ہی یہ مخالفت ختم ہوتی ہے، وہاں ان طاقتوں کے اپنے اپنے اور ایک دوسرے سے مختلف مفادات سر اٹھانے لگتے ہیں۔ خام مال برآمد کرنے والے مملک روس اور برازیل کے مفادات بھارت اور چین سے یکسر مختلف ہیں۔ دوسری طرف چین اور بھارت عشروں سے سرحدی تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔

چین، روس، برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ جیسی ابھرتی ہوئی معیشتیں عالمی سیاسی منظر نامے پر تیزی سے اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہیں اور اُن کا اثر و رسوخ بھی بڑھ رہا ہے
چین، روس، برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ جیسی ابھرتی ہوئی معیشتیں عالمی سیاسی منظر نامے پر تیزی سے اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہیں اور اُن کا اثر و رسوخ بھی بڑھ رہا ہےتصویر: AP

لائبنٹس انسٹیٹیوٹ فار گلوبل اینڈ ریجنل اسٹڈیز (GIGA) کے سابق ڈائریکٹر رابرٹ کیپل کے مطابق:’’یہ ابھرتی معیشتیں مختلف طرح کے سیاسی نظاموں کے ساتھ تعاون کرتی رہی ہیں، بغیر اُن کے حکومتی ڈھانچوں میں مداخلت کیے۔ ان ابھرتی طاقتوں کی اہمیت میں تیزی سے اضافے کے پیچھے اِن کی انتہائی بلند شرح نمو اور تعاون کی اختراعی پیشکشوں کا سنگم کارفرما ہے۔‘‘

نئے عالمی نظام کے حوالے سے وفاقی جرمن حکومت نے اس سال فروری میں جو خاکہ پیش کیا، اُس کی بنیاد یک قطبی یا دو قطبی نہیں بلکہ کثیر قطبی عالمی نظام پر رکھی گئی ہے۔ تاہم ماہر اقتصادیات ہیلمٹ رائزن کثیر قطبی نظام کے امکانات کو شک و شبے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چین کی بے پناہ طاقت کے باعث دنیا دو قطبی نظام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ رائزن کے بقول امریکی ایسا کوئی کثیر قطبی نظام نہیں چاہتے، جس میں طاقت اُن کے ہاتھ سے جاتی رہے اور یہ کہ واحد سپر طاقت کی حیثیت سے دستبردار ہونے میں امریکیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ رائزن کے خیال میں عالمی سیاسی منظر نامے میں یورپ یا ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقتوں کا کردار بہت ہی محدود ہو گا۔

R.M.Ebbighausen/aa/km

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید