ترقی کرتا ایشیا، جرمنی اور یورپ پر اثرات
18 جون 2012جرمنی کی مخلوط حکومت میں شامل یونین جماعتوں CDU اور CSU کی جانب سے تیرہ جون کو منعقدہ اس ایک روزہ کانگریس سے جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ ’سیاست حقیقت کا ادراک کر لینے سے شروع ہوتی ہے‘۔ جرمنی کی خارجہ سیاست کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ یورپ میں جرمنی ایک بڑا لیکن عالمی تناظر میں ایک قدرے چھوٹا ملک ہے۔
نئی عاجزی و انکساری
عالمی توازن میں ہونے والے رد و بدل کے پیشِ نظر برلن کے اس اجتماع میں ایک غیر معمولی عاجزی و انکساری دیکھنے میں آئی۔ ویسٹر ویلے نے اپنے مؤقف کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’اب حالات کی باگ ڈور اکیلے ہمارے ہاتھ میں نہیں رہی‘۔ اس اجتماع کو ’حالات کو رُخ دینے والی طاقتیں‘ کا عنوان دیا گیا تھا اور اس عنوان سے ہی اُس بڑھتے احترام کا پتہ چلتا ہے، جو جرمنی کی جانب سے چین اور بھارت ہی نہیں بلکہ انڈونیشیا، ملائیشیا اور ویت نام جیسے ابھرتے ہوئے ملکوں کے لیے نظر آنے لگا ہے۔
چند ایک اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے ویسٹر ویلے کا کہنا تھا کہ 1999ء کے بعد سے ایشیا کی ابھرتی ہوئی ریاستوں کی فی کس آمدنی میں تین گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ چین کے متوسط طبقے میں ہی ہر سال پندرہ ملین انسانوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔
اس نئی عاجزی و انکساری کے پیچھے پورے یورپ میں اس بات کا بڑھتا ہوا ادراک ہے کہ بھارت یا چین محض اقتصادی میدان ہی میں آگے نہیں آ رہے بلکہ دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ مل کر انہیں عالمی سیاسی سطح پر بھی زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہوتا جا رہا ہے۔ جرمن وزیر نے کہا کہ سیاسی کامیابیوں کے نتیجے میں یہ ملک پہلے علاقائی اور پھر عالمی سطح پر حالات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یورپ کے مقابلے میں، جہاں عمر رسیدہ شہریوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، ایشیا کے بہت سے معاشرے اپنی نوجوان آبادی کی وجہ سے کہیں زیادہ حرکی انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
سن 1900ء میں مجموعی عالمی آبادی کا 21 فیصد حصہ یورپ میں رہ رہا تھا۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق سن 2050ء میں یہ تناسب محض 7.6 فیصد رہ جائے گا۔ اسی مناسبت سے تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں بھی یورپ کا حصہ سکڑتا چلا جائے گا۔
کثیر قطبی دنیا
ویسٹر ویلے کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ ہم ایک کثیر القطبی دنیا میں داخل ہو چکے ہیں اور اسی حساب سے ترجیحات بھی بدل گئی ہیں۔ اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ اس نئے عالمی نظام کا عکس بین الاقوامی اداروں بالخصوص اقوام متحدہ کی عالمی سلامتی کونسل میں بھی نظر آنا چاہیے، جو ابھی تک بیس ویں صدی کے وسط کے فرسودہ نظام کی ہی عکاس چلی آ رہی ہے۔
اقتصادیات اور اَقدار
اس کانگریس میں یہ بات واضح ہو کر سامنے آئی کہ ایشیا کے سلسلے میں اقتصادی مفادات ایک بڑا کردار ادا کر رہے ہیں۔ خام مال کے سلسلے میں خاص طور پر وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ شراکت کا تذکرہ بار بار سننے میں آیا۔ آزادانہ تجارت کے کردار پر بھی زور دیا جاتا رہا۔
اَقدار کے حوالے سے مذہبی آزادی پر زور دیا گیا اور کہا گیا کہ مثلاً چین میں تعاقب کی شکار مسیحی آبادی کے حق کے لیے جدوجہد کی جائے گی۔ اس ایک موضوع سے ہَٹ کر مطلق العنان حکمرانی کے حامل اس ملک کی جانب عملیت پسندانہ طرزِ عمل روا رکھنے کی بات کی گئی۔ جرمن پارلیمان میں سی ڈی یو اور سی ایس یو کی پارلیمانی حزب کے اقتصادی امور کے ترجمان یوآخم فائفر نے اپنے اختتامی الفاظ میں کہا: چین کے ساتھ اقتصادی تبادلے کا حجم اُتنا ہی ہے، جتنا کہ امریکا کے ساتھ۔ اس بات کا ادراک ایک چیلنج ہے کہ پوری دُنیا خود بخود ہی ہماری اَقدار کو اپنانے کی کوشش نہیں کرے گی۔
سی ڈی یو کے خارجہ سیاست کے ماہر فلیپ مِسفیلڈر نے بھی ایشیا کے حوالے سے اس بات پر زور دیا کہ اقتصادی کامیابی خود بخود جمہوریت کے ساتھ جڑی ہوئی نہیں ہے۔
اس اجتماع میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ عالمگیر سطح پر محض ایک ایسا متحد یورپ ہی اپنا اثر و رسوخ دکھا سکتا ہے، جو یک زبان ہو کر بولے۔
M. v. Hein/aa/ia