1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تاریخ نویسی کے مُختلف ماخِذ

29 ستمبر 2024

جدید دور میں جب مورخ قدیم تاریخ کو مرتب کرنا چاہتا ہے تو اُسے اُن ماخذوں کی تلاش ہوتی ہے جو اُسے ماضی کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ ڈاکٹر مبارک علی کی تحریر

https://p.dw.com/p/4lCnF
ڈاکٹر مبارک علی
تصویر: privat

شاہی خاندان اور اُمراء تاریخ اور آرٹ کے ذریعے اپنی فتوحات، کارناموں اور فیاضی کی یادوں کو باقی رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ عام رعایا اُن سے مرعوب رہے اور اُن کی وفادار رہے۔ اس مقصد کے لیے اُںہوں نے تاریخ کے لیے مُختلف ماخذوں کو استعمال کیا۔

تاریخ کے ابتدائی دور میں لکھنے کے لیے کوئی مواد نہیں تھا اس لیے شاہی خاندان کے لوگ اور اُمراء پتھر کی بڑی سِلوں پر اپنے عہد کی تاریخ کو نقش کراتے تھے۔ پھر اِنھیں عام پبلِک مقامات پر نصب کرا دیتے تھے۔ چونکہ عوام کی اکثریت ناخواندہ ہوتی تھی، اس لیے اس معلومات کو پوری طرح سے عام لوگوں تک نہیں پہنچایا جا سکتا تھا۔

ڈاکٹر مبارک علی کی مزید تحریریں

میں نے تاریخ سے کیا سیکھا - ڈاکٹر مبارک علی کی تحریر

مؤرّخ اور ہم عَصر تاریخ

عہدِ وسطیٰ کا ہندوستان

پبلسِٹی کا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ شاہی احکامات، قوانین اور پالیسیوں کو کتبات پر لِکھ کر اُنھیں سلطنت کے تمام حصّوں پر نصب کر دیا جاتا تھا۔ جیسا کہ موریا سلطنت کے بادشاہ اَشوک نے کیا تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ جن علاقوں میں جو زبان بولی جاتی تھی، کتبات کو بھی اُسی زبان میں لِکھا جاتا تھا۔ یہ روایت بھی تھی کر مرنے والے کی قبر پر جو کُتبہ لگایا جاتا تھا اُس میں اُس کی خوبیاں بیاں کی جاتیں تھیں۔ ایران کے بادشاہ لارا نے اپنی فتوحات کی تفسیر تین زبانوں میں لِکھ کر اسے کوہِ بیہستون (Koh-e-Behiston) کی اُونچائی پر نصب کرایا تھا تا کہ کوئی اُس کو نقصان نہ پہنچا سکے۔

جب تہذیبوں میں رَسمُ الخط ایجاد ہوا تو تاریخ کو جانوروں کی ہڈیوں، مٹی کی تختیوں، پام درخت کے پتوں، بانس کی بنی تیلیوں اور پپائرس کو استعمال کیا گیا۔ جب چین میں کاغذ کی ایجاد ہوئی تو اِس نے تحریری تاریخ کو رواج دیا۔ مِصر میں شاہی خاندان کی تاریخ کو مَندروں کی دیواروں پر لِکھا جاتا تھا۔

شاہی خاندان اور اُمراء اپنے سیاسی اور سماجی مقام کو قائم رکھنے کے لیے کبھی اپنا تعلق دیوی دیوتاؤں سے مِلاتے تھے، اور کبھی ماضی کے فاتحین اور عظیم شخصیتوں سے تا کہ اُن میں اور عام رعایا میں فرق قائم رہے۔ اس مقصد کے لیے شجرے تیار کیے جاتے تھے۔ کیونکہ اعلیٰ نسل کے ہونے کی وجہ سے انہیں سرکاری عہدے اور جائیدادیں ملتی تھیں۔ شجروں کی بنیاد پر مراعات حاصل کرنے کی روایت برصغیر میں بھی رہی۔ سلطان بلبن اگرچہ غلام تھا، مگر حکمراں بننے کے بعد اِس نے ایران کے بادشاہ افراسیاب سے اپنا رشتہ مِلایا۔ ہندوستان میں جو ایرانی آتے تھے، وہ افغانستان میں اپنا شجرہ بنواتے تھے جس میں یہ خود کو اعلیٰ خاندان سے ثابت کرتے تھے۔ اس بنیاد پر اِنھیں مُغل بادشاہ اُونچے عہدوں پر فائز کرتے تھے۔ جائیدادیں دیتے تھے اور رہائش کے لیے محلات عطا کیے جاتے تھے۔ اس وجہ سے مُغل دربار میں ایرانی اُمراء کا بڑا اَثر و رسوخ تھا۔

برصغیر میں مسلمان معاشرے میں ذات پات کی وجہ سے فرق رہا ھے جو خود کو اعلیٰ ذات کا کہتے تھے، وہ دوسری ذاتوں میں شادی بیاہ نہیں کرتے تھے۔ تا کہ اُن کی نسل کی اصلیت باقی رہے۔ مؤرخوں نے اب تک ان شجروں کا ناقدانہ مطالعہ نہیں کیا ہے۔ ورنہ بہت سے خاندانی دعوے داروں کے شجرے شاید جعلی ثابت ہو جاتے۔

تاریخ کا ایک اور اہم ماخذ ستُونوں پر حکمراںوں کی طرف سے اپنی فتوحات نقش کرانا تھا۔ اَسیریا کے بادشاہوں نے ستونوں پر اپنی فتوحات کی تصاویر نقش کرائی تھیں۔ اِن میں وہ رَتھوں کے ذریعے دشمنوں کی لاشوں کو روندتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ جنگی قیدیوں کو اَذیتیں دی جا رہی ہیں۔ زندہ قیدیوں کی کھال کھنچوائی جا رہی ھے۔ اس بربریت کے تحت وہ اپنی عظمت کو پیش کر رہے تھے۔ رومیوں کی بھی روایت تھی کہ وہ اپنی فتوحات ستونوں پر کھدواتے تھے تا کہ لوگ اُس کو دیکھیں اور اُن سے متاثر ہوں۔ ایران کے دارالسطنت پرسی پولِس کے محل کی دیواروں پر جو تصاویر ہیں اُن میں بادشاہ تخت پر بیٹھا ہے اور اُس کے سامنے سے مفتوح قومیں خراج کی اشیاء لیے ہوئے گزر رہی ہیں۔

تاریخ کا ایک اور اہم ماخذ حکمرانوں کے وہ مجسمے ہیں جہاں انھیں گھوڑے پر سوار فاتح کی حیثیت سے دکھایا گیا ہے۔ اِن مجسموں کو آج بھی یورپ کے مُختلف شہروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ فتح کی یاد میں تعمیر شدہ عمارتیں جن میں دروازے محرابیں اور مینار شامل ہیں یہ بھی تاریخ کا ایک حصّہ ہیں۔

تاریخ کو ایک نیا رنگ دینے میں مصوّری کو بڑا دخل ہے۔ اگر ہم مُغل دربار کی مثال لیں تو مصوّری کی مدد سے مُغل تاریخ کو ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ بےشمار پینٹنگز جن میں مُغل دربارِ عام اور خاص، تہوار اور رسُومات، بادشاہ کی سالگرہ پر طول دان کی رسم، جنگ اور شکار کے مناظر، جھروکا درشن اور نقارخانے کی تفسیر اِن سب کو دربار کے مصوّروں نے خوش اسلوبی سے پینٹ کیا ہے۔ اِن پینٹنگز میں اُمراء کا لباس، اُن کے جلوس اور اُن کی سواریاں اُس عہد کے کلچر کو پیش کرتیں ہیں۔

تاریخ کے اِن مُختلف ماخذوں کی مدد سے جب کسی عہد کے کلچر کو لِکھا جائے گا تو اُس کی اپنی جگہ تحریری طاقت سے زیادہ اہمیت ہو گی۔ لیکن یہ تاریخ حکمرانوں کے رویّوں عادتوں اور مراعات کو پیش کرتی ہے اور عوام کے کردار کو اس تاریخ میں چھپایا گیا۔ اس لیے تاریخ کا یہ حصّہ پورے معاشرے کی نمائندگی نہیں کرتا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔