مورخ کے لیے ہم عصر تاریخ کا لِکھنا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ وہ جذباتی طور پر اپنی پسند اور ناپسند کا اظہار کرتا ہے۔ رومی مورخ ٹیسیٹس (AD56) نے Augustus (14 AD) اور اُس کے بعد کے حکمرانوں کی تاریخ لِکھتے ہوئے رومی سلطنت کی کمزوریوں کو بیان کیا ہے۔ اس موضوع پر Thomas Strunk نے اپنی کتاب (History After Liberty) میں بیان کیا ہے، کہ تاریخ نویسی کن وجوہات کی بنا پر متاثر ہوئی اور سچائی کو کیسے چھپانے کی کوشش کی گئی۔
ٹیسیٹس اور اُس کی تاریخ کو ریناساں یا نشاط الثانیہ کے عہد میں دریافت کیا گیا۔ اُس کی تاریخ نویسی کے بارے میں یہ رائے ہے کہ وہ ریپبلِک کا حامی تھا مگر رومی بادشاہت کے دوران اُس نے یہ تاریخ لِکھی۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب نپولین کے سامنے اُس کا ذکرآیا تو اُس نے غصّے سے کہا کہ ''میرے سامنے اُس کا نام نہ لو وہ پمفلٹ لِکھنے والا تھا اور بادشاہت کا مخالف تھا۔‘‘
ٹیسیٹس نے رومن ریپبلِک کی آزادی کو بادشاہت میں بدلتے دیکھا۔ وہ آزادی کا غلامی سے مقابلہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ بادشاہت میں بادشاہ آزاد ہے اور رعایا غلام۔ وہ اپنی تاریخ میں اُن وجوہات کو سامنے لایا ہے جن کی وجہ سے آزادی کا خاتمہ ہوا۔ اگرچہ اگسٹس نے شہنشاہ کا خطاب تو اختیار نہیں کیا مگر اُس کے پاس حکمرانی کے تمام اختیارات تھے۔ اپنی طاقت کو مستحکم کیا، جو اُس کی ہر پالیسی کو نافذ کرنے میں مدد دیتی تھی۔
اس کا اپنا حفاظتی فوجی دستہ تھا جو بے انتہا وفادار تھا۔ فوج کے جنرلوں کو منتخب کرتے ہوئے اُن کی اہلیت سے زیادہ اُس کی اپنی ذاتی پسند ہوتی تھی۔ اُس نے یہ بھی اعلان کر دیا تھا کہ رُومیوں کو مذید فتوحات کی ضرورت نہیں ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی دوسرا جنرل فتوحات کے ذریعے مقبول ہو۔
رومی سلطنت میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی جنرل فتح کے بعد واپس آتا تھا تو اُس کا جلوس نکالا جاتا تھا مگر اس کی اجازت سینیٹ دیا کرتی تھی۔ لہٰذا یہاں بھی اگسٹس کی پسند اور ناپسند شامل تھی۔ بعض نااہل جنرلوں کو فتح کا جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی۔ ایک جنرل جس کے پاس جنگی قیدی کم تھے اُس نے کرائے کے لوگوں کو قیدی بنا کر جلوس میں شامل کر لیا۔ اس تاثر کی وجہ سے فوجی جنرلوں میں باہمی رقابت شروع ہو گئی۔ یہ صورتحال اس وقت پیش آئی جب اپنے پسندیدہ جنرلوں کو خطابات دیے گئے۔ ٹیسیٹس کے مطابق اس پالیسی کی وجہ سے ذہین اور لائق فوجی افسروں میں سخت مایوسی پھیلی۔
ٹیسیٹس نے اس کا بھی اظہار کیا ہے کہ جب حکمراں کے پاس تمام اختیارات آ جائیں تو اس کے اردگرد کے مصاحبوں اور ریاست کے عہدیداروں میں خوشامد کا کلچر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں خوشامد ایک فن بن جاتی ہے، اور حاشیہ بردار لوگ حکمران کو خوش کر کے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ یہ صورتحال اگسٹس کے زمانے میں دیکھی گئی جب خوشامد کے ذریعے حاشیہ برداروں نے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے عوام کا استحصال کیا اور ناجائز طور پر دولت اکھٹی کی۔
Tacitus اس پر افسوس کرتا ہے کہ رِیپبلِک دور کی آزادی کا خاتمہ ہو گیا اور حکمرانوں نے اپنی استبدادی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے رومی سلطنت کی بنیادوں کو کمزور کیا۔ وہ خاص طور سے خوشامد کے اثرات جو تاریخ نویسی پر ہوئے تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ مورخوں نے حکمرانوں کی تعریف کرتے ہوئے تاریخ کو مسخ کیا اور حقائق کو چھپایا لیکن ایسے مورخ بھی تھے جنہوں نے آزادی رائے پر عمل کرتے ہوئے جرأت کے ساتھ حقائق کو بیان کیا۔
اُس نے خاص طور سے Permiso-De-Corte کی تاریخ کو بیان کرتے ہوئے لِکھا ہے کہ اس نے سیزر کے قاتلوں کی تعریف کی ہے، کیونکہ انہوں نے ریپبلک کی روایات کو برقرار رکھنے کے لیے سیزر کو اس لیے قتل کیا کیونکہ وہ شہنشاہ بنّے کے منصوبے بنا رہا تھا۔ Permiso پر ان خیالات کی وجہ سے سینٹ میں مقدمہ چلایا گیا اور اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ اگسٹس اور اس کے جانشینوں کے خلاف غدّاری میں ملوّث ہے۔ مقدمے کی کاروائی کے بعد وہ گھر لوٹا اور فاقہ کر کے خودکشی کر لی۔ سینٹ کے حکم سے اس کی تمام کتابوں کو جلا دیا گیا۔ مگر اس کی لڑکی نے کچھ نسخے محفوظ کر لیے جو بعد میں دریافت ہوئے اور اس کی اشاعت سے سیزر کے قاتلوں کے بارے میں نیا نقطہ نظر سامنے آیا۔
ٹیسیٹس تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اگسٹس کے جانشینوں نے ان مورخوں کا سخت محاسبہ کیا جو حکمرانوں کی غلطیوں اور کمزوریوں کو بیان کر کے ان کی اصل حقیقیت کو سامنے لائے ان حکمرانوں نے عوام میں ڈر اور خوف پیدا کر کے عوام کو خاموش رکھا۔ جاسوسوں کے ذریعے لوگوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھی اور مخالف مورخوں کی کتابوں کو جلایا گیا اور آزادی رائے کا خاتمہ کر دیا گیا۔
ٹیسیٹس اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ حکمرانوں کی ان پالیسیوں کی وجہ سے ماضی میں ہونے والے واقعات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ سنسر شپ اور سخت سزاوں کے باوجود سچائی کے لیے آواز اُٹھانے والے ہر دور میں موجود رہتے ہیں۔
اگر اس تناظر میں ہم موجودہ دور کی تاریخ نویسی کا تجزیہ کریں تو یورپی مورخ اپنے سامراج کی تاریخ کو اپنے نقطہ نظر سے لِکھ کر ظلم اور استحصال کو چھپاتے ہیں۔ تاریخی دستاویزات میں ردّ و بدل کرتے ہیں اور اپنے مظالم کی نشانیوں کو ظاہر نہیں ہونے دیتے، بلکہ یہی صورتحال امریکہ کے مورخوں کی ہے جو اپنے سامراجی جرائم کو چھپا کر کبھی جمہوریت اور کبھی تہذیب کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
اَلمیہ یہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں مُلکوں میں مذہبی انتہاپسند تاریخ کو مسخ کر کے اپنے نظریات کی اشاعت کرتے ہیں۔ اس لیے تاریخ ایک ایسا ذریعہ ہے جسے قدیم عہد سے لے کر آج تک حکمران طبقے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔ اگرچہ یہ ضرور ہے کہ اس ماحول میں ایسے مورخ بھی موجود ہیں جو اپنی تحقیق سے تاریخ کو استعمال کرتے ہوئے سچائی کو سامنے لاتے ہیں۔ اس لیے تاریخ نویسی میں جھوٹ اور سچ کے درمیان تصادم جاری ہے، اور یہ کہنا مشکل ہے کہ آخر میں سچ ہی کی فتح ہو گی۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔