1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخعالمی

عہدِ وسطیٰ کا ہندوستان

31 دسمبر 2023

عہدِ وسطیٰ میں سلطنت اور مغل دور کے ہندوستان میں ٹیکنالوجی کی وجہ سے ایک انقلاب آیا اور نئی ایجادات نے ہندوستان کے معاشرے کو سماجی اور سیاسی طور پر بدل کر رکھ دیا۔

https://p.dw.com/p/4aiau
DW Urdu Blogger Mubarak Ali
تصویر: privat

حملہ آور دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو حملے کے نتیجے میں لوٹ مار کے مال کو جنگ و جدل کے بعد اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ دوسرے وہ ہوتے ہیں جو ملک پر قبضے کے بعد وہیں آباد ہو جاتے ہیں اور اسی کو اپنا وطن بنا لیتے ہیں۔ ہندوستان کے مشہور سیاستدان دادا بھائی نوروجی نے کہا تھا کہ جو حملہ آور لوٹ مار کا مال لے جاتے ہیں، وہ ہندوستان کو زخمی کر جاتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ زخم بھر جاتے ہیں۔ لیکن برطانوی حکومت ہندوستان سے ہر سال جو دولت سمیٹ کر لے جاتی ہے، اس سے یہ زخم ہرے ہی رہتے ہیں۔

محمود غزنوی نے بھی ہندوسان پر 17 حملے کیے اور ہندوستان کی دولت کو غزنی لے گیا۔ محمد غوری کے زمانے میں ہندوستان میں اس کی سلطنت قائم ہوئی اور یہ ہندوستان کے باشندے ہو گئے۔ سلطنت کے عہد میں یہاں مختلف ایجادات کو روشناس کرایا گیا۔ تیرہویں صدی میں یہاں کاغذ کی صنعت آئی۔ کاغذ ایک انقلابی تبدیلی لے کر آیا۔ ٹیکس کے گوشوارے، حکومت کے احکامات، معاہدے، خط و کتابت، تاریخ، شاعری اور داستانوں کا تحریر میں آنا، اس کی وجہ سے زبانی کلچر تحریر میں بدل گیا۔

لکھائی کے لیے نئے رسم الخط ایجاد ہوئے۔ مخطوطات کو پینٹگز سے آراستہ کیا گیا۔ بادشاہ اور امراء نے اپنے ذاتی کتب خانے قائم کیے اور کتابت ایک مقدس فن بن گیا۔

ایک اہم ایجاد کپڑے کی صنعت بھی تھی۔ ہندوستان کے جولاہوں نے جو کپڑا تیار کیا، وہ پوری دنیا میں مشہور ہوا۔ یہاں تک کہ انگلستان کا بادشاہ، امراء اور شاہی خواتین ہندوستانی کپڑے کا لباس پہنتے تھے۔ ڈھاکہ کی ململ مشہور تھی۔ اس کے بنانے والوں کا شمار ماہر جولاہوں میں ہوتا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ اسے تہ خانے میں تیار کیا جاتا تھا تا کہ یہ موسمی اثرات سے محفوظ رہے۔

اسی عہد میں آبپاشی کے لیے ایرانی پہیے کا استعمال ہوا، جس کی وجہ سے پیداوار میں اضافہ ہوا اور نئی فصلیں بھی روشناس کرائی گئیں۔ ان میں خاص طور سے گنے کی کاشت بہت اہم تھی۔ مسلمان تاجر اسے نیوگنی سے ہندوستان لائے تھے۔ ہندوستان سے یہ جنس مراکش گئی۔ وہاں سے اندلس اور اسپین اور پھر امریکہ اور جزائر کیریبین تک پہنچی۔ ہندوستان میں گنے کے رس سے گاؤں گاؤں گڑ بننے لگا اوریوں مٹھاس عام لوگوں تک پہنچ گئی، ورنہ اس سے پہلے تو مٹھاس کے لیے شہد استعمال کیا جاتا تھا۔

عہدِ وسطیٰ میں فارسی زبان سرکاری ہوئی جس کی وجہ ہندوی اور فارسی نے مل کر ریختہ کو پیدا کیا، جسے بعد میں اردو کا نام دیا گیا۔ مذہبی ہم آہنگی کے لیے بھگتی تحریک اٹھی جس میں بھگت کبیر، دادو دیال اور چیتنیہ اہم تھے۔ یہ گاؤں گاؤں جا کر لوگوں کو اکٹھا کر کے بھجن، گیت اور دوہے گایا کرتے تھے جو مذہبی انتہاپسندی کے خلاف ہوتے تھے۔

تیرہویں صدی میں منگول قبیلہ طاقت ور بن کر ابھرا۔ ہلاکو نے 1258 میں عباسی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ منگول حملہ آوروں نے بلبن کے زمانے میں ہندوستان پر حملے شروع کیے۔ جب علاؤالدین خلجی سلطان ہوا، تو اس نے منگول حملوں کا سختی سے مقابلہ کیا اور منگول قیدیوں کو ہاتھیوں کے پیروں تلے کچلوا دیا۔ اس سے منگول اس قدر خوف زدہ ہوئے کہ انہوں نے ہندوستان پر حملے بند کر دیے۔ سلطنت کے عہد میں صوفیاء کا کردار بڑھا ہوا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ سلاطین کی فتوحات ان کی دعاؤں کے نتیجے میں ہوتی رہیں۔ ان کے خلیفہ سلطنت کے ہر حصے میں موجود رہتے تھے اور دعویٰ یہ کیا جاتا تھا کہ ملک کا انتظام وہی چلاتے ہیں۔ مغل دور میں صوفیاء کا یہ کردار ختم ہو گیا۔

اسی عہد کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تاریخ نویسی کو روشناس کرایا گیا۔ ورنہ ہندوستان میں تاریخ لکھنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ اب بادشاہ اور امراء مؤرخین کی سرپرستی کرنے لگے، جس کی وجہ سے سلطنت کے عہد کے واقعات محفوظ ہو گئے۔ ترکوں کی آمد نے ہندوستان کے ذات پات کے نظام کو بھی بدل ڈالا۔ جب برہمنوں کی سرپرستی نہ رہی، تو وہ کاریگروں کی دکانوں پر حساب کتاب کے لیے ملازم ہو گئے۔ کشتری طبقہ اچانک غائب ہو گیا اور اس کی جگہ راجپوتوں نے لے لی۔ مغلوں کی آمد کے بعد بابر کی وصیت بڑی اہم ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ ہندوستان میں گائے کی قربانی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے ہندوؤں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔

اکبر نے اپنے عہد میں 'صلح کُل‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں اشتراک کو آگے بڑھایا۔ ہندو تہوار جن میں دیوالی، دسہرا اور ہولی شامل تھے، یہ سب مغل دربار میں منائے جاتے تھے۔ اکبر نے عبادت خانہ قائم کیا۔ جس میں ہر مذہب کے علماء کو دعوت دی کہ وہ اپنے عقائد کے بارے میں بتائیں۔ اکبر اس تلاش میں تھا کہ سچائی کہاں ہے۔ اسے یہ سچائی ہر مذہب میں ملی اور اس نے مذہبی ہم آہنگی کی سرپرستی کی۔

سلطنت اور مغل ادوار میں جو تبدیلیاں آئیں، انہوں نے ہندوستان کے ٹھہرے ہوئے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ معاشرہ جو تب تک ذات پات، اشرافیہ اور نچلے طبقات میں بٹا ہوا تھا۔ اس تبدیلی نے عام لوگوں کو موقع دیا کہ وہ اپنی ذہانت اور قابلیت سے ممتاز مقام حاصل کریں۔ اس لیے مسلمان اشرافیہ میں نچلے طبقوں کے لیے بڑی حقارت تھی۔ لیکن پھر پورا معاشرہ ہی بدل گیا۔ عہدِ وسطیٰ کی یہ تاریخ نئے خیالات و افکار کو روشناس کراتی ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں تصادم کے ساتھ ساتھ اشتراک بھی ہے۔ یہی تاریخ کے مطالعے کی خوبی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔