1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات شروع

6 اپریل 2021

ان مذاکرات کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے اس بین الاقوامی معاہدے کو بچانا ہے، جس سے امریکا سن 2018 میں یک طرفہ طورپرالگ ہوگیا تھا۔ معاہدے کو برقرار رکھنے کی یہ پہلی سنجیدہ کوشش ہے۔

https://p.dw.com/p/3rbs8
Iranische Flagge neben Rakete
تصویر: FARS NEWS/AFP

آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں آج منگل کے روز یورپی یونین کی صدارت میں یہ بات چیت ہو رہی ہے۔ اس میں سن 2015 کے جوہری معاہدے کے شرکاء ایران، چین، فرانس، جرمنی، روس اور برطانیہ حصہ لے رہے ہیں۔ اس موقع پر امریکی وفد کی یورپی یونین کے مذاکرات کاروں سے علیحدہ میٹنگ ہوگی۔

مرحلہ مشکل ہے

امریکا کا کہنا ہے کہ ایران جوہری معاہدے کے حوالے سے منگل کے روز ہونے والی بات چیت ”مشکل" ہے اور انہیں فوری طور پر کسی کامیابی کی امید نہیں ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پیر کے روز کہا کہ امریکا ” بات چیت میں پیش آنے والے چیلنجز کو کم کر کے نہیں دیکھتا ہے۔ یہ ابھی ابتدائی معاملہ ہے۔ ہمیں فوری طورپر کسی کامیابی کی توقع نہیں ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ بات چیت کافی مشکل ہوگی۔“

نیڈ پرائس کا جوہری معاہدے کے حوالے سے مزید کہنا تھا''اس کا فارمولا آج بھی وہی ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام کے مصدقہ اور مستقل طور پر روکنے کے بدلے پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔"

Mohammed Dschawad Sarif | iranischer Außenminister
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریفتصویر: Russian Foreign Ministry/dpa/picture alliance

فیصلہ ایک بار میں ہونا چاہیے

 تہران نے امریکا کے ساتھ براہ راست بات چیت کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔

ایرانی  وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا''چاہے جوائنٹ کمیشن کا ایجنڈا نتیجہ خیز ثابت ہو یا نہ ہو لیکن یہ یورپی اور مذاکرات میں موجود ممالک کو وہ شرائط یاد دلائے گی جن پر امریکا کو عمل کرنا ہے۔"  ان کے مطابق ”روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی امریکا سے کیا بات کرتے ہیں یہ ان کا آپس کا معاملہ ہے۔“

خطیب زادہ کے مطابق ایرانی وفد میں شامل ماہرین اس بات کی تفصیلات فراہم کریں گے کہ ایران معاہدے کی شقوں کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کو روکنے کا کیا منصوبہ رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا''ہم صرف ایک فیصلہ چاہتے ہیں اور وہ امریکی پابندیوں کا خاتمہ ہے یہ ایک بار میں ہونا چاہیے، مرحلہ وار نہیں۔"

 ایران کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کے نمائندہ خصوصی راب میلے مذکرات میں امریکی وفد کی سربراہی کر رہے ہیں۔ راب میلے کلنٹن اور اوبامہ انتظامیہ میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ راب میلے کی ایرانی وفد سے ملاقات طے نہیں ہے۔

Iran Atomkraftwerk Bushehr
ایران کا بوشہرنیوکلیائی پاور پلانٹتصویر: TASS/picture alliance

سنجیدہ اور ٹھوس قدم

وائٹ ہاوس کی ترجمان جین ساکی کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ یقین ہے کہ میٹنگ کے دوران نیوکلیائی معاہدے کے حوالے سے ان اقدامات پر بات چیت ہوگی جن پر ایران کو عمل کرنا ہے اور جن کے بدلے میں امریکا اس کے خلاف عائد پابندیوں میں نرمی کرے گا۔

تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے علی واعظ کا کہنا ہے کہ ویانا میں ہونے والے مذاکرات اس بات کے مظہر ہیں کہ امریکا اور ایران دونوں ہی تعطل کو توڑنے کے تئیں سنجیدہ ہیں۔

ایک دیگر تھنک ٹینک آرمس کنٹرول ایسوسی ایشن کی ڈائریکٹر کیلسی ڈیون پورٹ کا خیال ہے کہ مذاکرات کا فارمیٹ آئیڈل تو نہیں ہے لیکن یورپی یونین اس تعطل کو ختم کرنے کی اہل ہے۔ انہوں نے ان مذاکرات کو”فریقین کی جانب سے ایک ٹھوس قدم" قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ اس سے مسئلے کو حل کرنے میں تیزی آئے گی۔

 ج ا/ ص ز (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں