1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

یورپی یونین اور ایران میں بات چیت، امریکا کا خیر مقدم

2 اپریل 2021

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکا ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی چاہتا ہے جسے ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر ترک کر دیا تھا۔   

https://p.dw.com/p/3rWEw
Iran Atomkraftwerk Bushehr
تصویر: Fatemeh Bahrami/AA/picture alliance

امریکا نے یکم اپریل جمعرات کے روز کہا کہ یورپی یونین نے ایران کے ساتھ سن 2015 کے جوہری معاہدے پر جس بات چیت کا اعلان کیا ہے وہ اس کا خیر مقدم کرتا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا، "ہم واضح طور پر اس کا ایک مثبت قدم کے طور پر  خیر مقدم کرتے ہیں۔"

جوہری معاہدے کے حوالے سے یورپی یونین اور ایران کے درمیان ورچوؤل بات چيت جمعہ دو اپریل کو ہو رہی ہے۔ اس میں مشترکہ جامع منصوبہ بندی (جے سی پی او اے) معاہدے میں شامل برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس جیسے ممالک بھی شامل ہوں گے۔ یہ بات چيت اس توقع کے ساتھ ہو رہی ہے کہ اس معاہدے میں امریکا پھر سے واپس ہو سکے گا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا، "ہم جے سی پی او اے کے تحت کیے گئے وعدوں پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں اگر ایران بھی ایسا ہی کرے تو۔"

واپسی کی کوشش

امریکی صدر جو بائیڈن اس ایران جوہری معاہدے  کے حامی رہے ہیں جس سے سابق صدر ڈونلڈ  ٹرمپ نے امریکا کو باہر نکال لیا تھا۔ ٹرمپ نے جوہری معاہدے کو ترک کرنے کے بعد ایران پر سخت ترین پابندیاں بھی عائد کر دی تھیں۔

اس موضوع پر براہ راست بات چيت کے لیے امریکا اور ایران کے درمیان ملاقات کے لیے ابھی اتفاق کرنا باقی ہے اور فریقین اب تک یورپی یونین کے ذریعے بالواسطہ طور پر رابطے میں رہے ہیں۔

یورپی یونین نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، "شرکاء (جے سی پی او اے) میں امریکا کی ممکنہ واپسی کے امکانات اور تمام فریقوں کے ذریعہ معاہدے کے مکمل اور موثر نفاذ کو یقینی بنانے کے طور طریقوں پر تبادلہ خیال کریں گے۔"

’ایران سے خطرہ‘، اسرائیل نے میزائل دفاعی نظام فعال کر دیا

فرانس میں وزارت خارجہ کی ترجمان  اگنیس کون ڈیئر مہل نے صحافیوں سے بات چيت میں بتایا کہ یورپی ممالک اس بارے میں تعطل دور کرنے اور ایک حل تلاش کرنے کے مقصد سے روس اور چین کے ساتھ ملکر کام کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں امریکا اور ایران سے بھی بات چيت جاری ہے۔ 

ان کا کہنا تھا، "چونکہ ایران جے سی پی او اے میں شامل دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ امریکا کے ساتھ براہ راست رابطہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اس لیے یہ تبادلہ خیال بہت ضروری ہے۔ اگر ایران امریکا سے براہ راست رابطے کے لیے راضی ہوتا تو یہ بات چیت کافی آسان ہو جاتی۔"

ص ز/ ج ا  (اے ایف پی، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں