1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

خامنہ ای کا امریکا سے پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ

22 مارچ 2021

ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ علی خامنہ ای کا کہنا ہے کہ جب تک ٹرمپ دور کی پابندیاں ختم نہیں کی جاتیں اس وقت تک تہران جوہری معاہدے کی کلیدی شقوں پر عمل نہیں کرے گا۔

https://p.dw.com/p/3qwT7
Iran, Tehran I Ayatollah Ali Khamenei
تصویر: Office of the Iranian Supreme Leader/AP/picture alliance

ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ علی خامنہ ای نے اتوار 21 مارچ کو ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ اس سے پہلے کہ ایران 2015 کے جوہری معاہدے میں واپسی کرے امریکا کو تہران کے خلاف عائد تمام پابندیوں کو ختم کرنا ہوگا۔

ایران کے نئے سال 'نو روز' کے موقع پر ٹیلی ویژن پر خطاب کے دوران مذہبی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے اس معاہدے سے امریکا کے الگ ہونے کے فیصلے پر شدید نکتہ چینی کی اور اسے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ''بڑا جرم'' قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا، ''وہ (ٹرمپ) اپنے ملک کو بدنام کرتے ہوئے، بڑے برے انداز سے چلے گئے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی نا کام ہوچکی ہے اور اگر موجودہ امریکی انتظامیہ بھی اسی راہ پر چلنا چاہتی ہے، تو وہ بھی نا کام ہوگی۔''

ایران جلد بازی میں نہیں ہے

خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ان کا یہ موقف ایران کی ''حتمی پالیسی'' پر مبنی ہے اور ان کی حکومت پابندیاں ختم کرانے میں ''جلد بازی سے بھی کام نہیں لے رہی ہے۔''  انہوں نے کہا، ''جس پالیسی کا ہم نے اعلان کیا ہے اگر وہ اس کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل کریں تو پھر ہر چیز درست ہو جائے گی۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو پھر یہی موجودہ صورت حال برقرار رہے گی جو فی الوقت ہے، اور یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔''

جنرل سلیمانی کی میت آبائی شہر کرمان پہنچا دی گئی

ایران میں آئندہ جون کو صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور اس موقع پر مذہبی پیشوا نے صدارتی امیدواروں کو بھی متنبہ کیا کہ انہیں یہ مان کر چلنا چاہیے کہ امریکی پابندیاں برقرار رہیں گی اور انہیں اسی بنیاد پر اپنی معاشی منصوبوں کو بھی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

ٹرمپ نے کیا کیا تھا؟

امریکا سمیت عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے سن 2015 کے جوہری معاہدے میں ایران نے یورینیم کی افزودگی کو محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ عالمی طاقتوں نے اس کے بدلے میں تہران پر عائد اقتصادی پابندیوں کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن جب ٹرمپ انتظامیہ نے امریکا کو اس معاہدے سے الگ کر کے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنی شروع کیں تو ایران نے بھی معاہدے کے حدود ترک کر دیں۔

ٹرمپ انتظامیہ نے ایرانی بینکوں سمیت دیگر اہم معاشی اداروں پر بھی پابندیاں لگا دیں تھیں۔ اس کے رد عمل میں ایران نے بھی جوہری معاہدے کی خلاف وزری کرتے ہوئے یورینیم کی افزودگی کی شرح بڑھا دی۔ ایران چاہتا ہے کہ معاہدے کے تمام فریق اپنے وعدوں کو پورا کریں تو وہ بھی اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہے۔

ایران کے ساتھ بائیڈن کا منصوبہ کیا ہے؟ 

جو بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد وائٹ ہاؤس انتظامیہ نے کہا تھا کہ امریکا نیوکلیئر ڈیل میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے تیار ہے اور جیسے ہی تہران حکومت جوہری معاہدے میں طے شدہ شرائط کی تعمیل کا مظاہرہ کرے گا ویسے ہی واشنگٹن دوبارہ ڈیل میں شامل ہو جائے گا۔

 تاہم دونوں کا اصرار اس بات پر ہے کہ پہلا قدم دوسرا فریق اٹھائے۔ امریکا کا موقف ہے کہ پہلے ایران جوہری معاہدے پر مکمل طور پر عمل کرے پھر امریکا اس میں شامل ہونے پر بات چیت کرے گا جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ چونکہ امریکا اس معاہدے سے خود پہلے الگ ہوا تھا اس لیے پہل بھی اسے کرنی ہوگی۔

اس تعطل کو دور کرنے کی کوشش کے تحت بین الاقوای توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رفائل گراسی دونوں حکومتوں سے بات چیت بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ اس معاہدے میں امریکا کی واپسی ممکن ہے۔

ص ز/ ج ا  (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)  

   

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں