1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہیوکرین

'میں یوکرین کی فتح دیکھناچاہتی ہوں'،102 سالہ یوکرینی خاتون

30 نومبر 2022

لیوبوف یاروش سوویت قبضے کے دور میں ہولودومور قحط اور دوسری جنگ عظیم سے بچ جانے والے خاتون ہیں۔ 102 سال کی عمر میں وہ روس کی یوکرین کے خلاف جنگ میں یوکرینی فوجیوں کی مدد کے لیے کمر بستہ ہیں۔

https://p.dw.com/p/4KIFk
Lubov Yarosh | 102-jährige Ukrainerin
تصویر: DW

 

وہ اپنے گھر میں ایک صوفے پر بیٹھی ایک کے بعد ایک دھاگے کے سرے کو سلجھاتی ہوئی کچھ بُن رہی ہیں اگرچہ ان کی بینائی اور قوت سماعت بہت کمزور ہو چُکی ہے اور انہیں دیکھنے اور سُننے میں بہت دشواری ہوتی ہے تاہم لیوبوف یاروش توانائی سے بھرپور ہیں اور زندگی کی اُمنگ اب بھی ان میں باقی ہے۔  روس کی جارحیت اور  جنگ کے خلاف لڑنے والے یوکرینی فوجیوں کے لیے '' کیموفلاج نٹس‘‘ یا حفاظتی جال بُن رہی ہیں۔ یہ ضعیف خاتون اب یوکرین کے ایک چھوٹے سےگاؤں ورکیف  میں رہتی ہیں۔ ان کی پیدائش یوکرین کے شمالی علاقے ژیٹومیر کے ایک پڑوسی گاؤں پوسٹلنک میں  1920ء  میں ہوئی تھی۔

ہولودومور قحط سالی

سابق سویت یونین کی عمل داری میں یوکرین کے وسطی اور مشرقی علاقے میں ایک خوفناک قحط آیا تھا۔ اس بد ترین انسانی المیے میں ساڑھے تین سے پانچ ملین کے قریب انسان لقمہ اجل بنے تھے۔ تاریخ میں قحط سالی کا یہ واقعہ Holodomor (ہولودومور) کے نام سے درج ہے۔  1932 ء سے 1933 ء کے دوران اس خطے کی قحط سالی کو ''ٹیرر فیمین‘‘ اور  ''گریٹ فیمین‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس مہلک واقعے کی ایک غیر معمولی بات یہ تھی کہ یہ '' انسان کی پیدا کردہ قحط سالی‘‘ تھی جس کا شکار کروڑوں انسان ہوئے۔

 ہولودومور قحط، دوسری عالمی جنگ اور روس کی موجودہ جنگ

یاروش ہولودومور قحط سے تو بچ گئی تھیں لیکن جلد ہی دوسری عالمی جنگ شروع ہو گئی۔ دو بار نازیوں نے انہیں جبری مزدور کے طور پر جرمنی جلاوطن کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ دونوں بار فرار ہونے میں کامیاب ہوئیں۔ وہ ماضی کے ان بھیانک لمحات کو یاد کرتی ہوئے کہتی ہیں،'' وہ مجھے جرمنی لے گئے لیکن میں بھاگ آئی۔ جب انہوں نے مجھے دوبارہ گھر سے لے جانے کی کوشش کی تو میں نے چاقو لے کر اپنے ہاتھ اور سینے پر زخم لگائے اور زخموں پر نمک پاشی کی۔ میں نے خود کو ایسے زخمی کر لیا کہ نازیوں نے مجھے لے جانا مناسب نہیں سمجھا اور مجھے چھوڑ گئے۔‘‘

Ukraine Kiew | Gedenken an die Opfer von Holodomor
ہولودومور میموریل کییف میں قائم ہےتصویر: Andre Luis Alves/AA/picture alliance

جب دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو یاروش نوجوان تھیں۔ وہ ایک اجتماعی فارم اور آراچکی مل میں کام کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے ٹریکٹر سے کھیتوں کی کاشت کاری سیکھی کیونکہ سوویت یونین کے تمام مردوں کو نازی جرمنی سے لڑنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ اپنی طویل عمر اور ضعیفی میں اب انہیں ایک بار پھر جنگی حالات  کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس بار روس کی طرف سے یوکرین کے خلاف ایک مکمل جنگ جاری ہے جسے یاروش'' بدترین جنگ‘‘ کہتی ہیں۔ اس ضعیف العمر خاتون کے بقول،''خدا نہ کرے کسی کو کبھی ایسی جنگ دیکھنا پڑے۔‘‘جاپان کی پہلی خاتون فوٹوگرافر کا 107 سال کی عمر میں انتقال

 

 ہولودومو اور 1931 ء کے واقعات

انیس سو اکتیس کے اوائل میں لاکھوں دانشوروں کو سائبیریا جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ ان میں ملک کے اہم ترین شعرا، ادیب اور فنکار بھی شامل تھے۔ 1990ء کی دہائی میں سوویت یونین کے ٹوٹنے تک اس ظلم و ستم اور ہولودومور کے بارے میں عوامی بحث نہیں ہو سکتی تھی۔

2006ء میں یوکرین کی پارلیمان نے ہولودومور کے واقعے کی یوکرینی عوام کے خلاف نسل کُشی کے طور پر درجہ بندی کی تھی ۔ یوکرینی مورخین کے مطابق 1930ء کی دہائی میں قحط کے نتیجے میں تقریباً 4 ملین افراد ہلاک ہوئے تھے۔ آج 30 نومبر کو وفاقی جرمن  پارلیمان، Bundestag، چار پارلیمانی گروپوں کی درخواست پر ہولودومور کو نسل کُشی کے طور پر تسلیم کرنے والی ہے۔

 ہولودومور قحط سالی کی بھیانک یادیں

یاروش ماضی کے اُن بھیانک حالات پر نظر ڈالتے ہوئے کہتی ہیں،''بہت سے بچے گھروں میں بھوک سے مر گئے۔  جن مردوں میں ابھی کچھ طاقت باقی تھی وہ گھر گھر گئے اور انہوں نے دیکھا کہ ان میں سے کچھ بچے چولہوں پرمردہ پڑے ہوئےتھے۔  ان مردوں  نے بھوک سے مرنے والے ان  دس بچوں  کو گاڑی میں بھرا اور پھر ایک بڑا گڑھا کھودا۔ ان سب کو اُسی طرح اجتماعی طور پر دفن  کر دیا گیا تھا۔‘‘

ایک برس میں دس کروڑ لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے، اقوام متحدہ

BdTD Kiew Gedenken an Opfer Hungersnot in Sowjet-Ära
ہولودومور قحط سالی میں مرنے والے لاتعداد انسانوں کی یاد میں ہر سال منعقد ہونے والی ایک تقریبتصویر: GENYA SAVILOV/AFP

یاروش کے پانچ بہن بھائی تھے۔ اُن کے بڑے بھائی میکائیلو اپنے خاندان کے لیے شلجم کی تلاش میں دوسرے گاؤں گیا تھا وہاں اُسے گشتی پولیس نے پکڑ لیا اور اُسے زد و کوب کر کے جان سے مار ڈالا۔ ان کی چھوٹی بہن اولیا بھوک سے مر گئی۔ یاروش کے والد کو اپنے بچوں کو اکیلے دفن کرنا پڑا۔ یاروش کہتی ہیں، '' قریب ہی ایک قبرستان تھا۔ میرے والد اپنے سب سے بڑے بیٹے کو وہاں لے گئے اور اسے وہاں دفنا دیا۔‘‘ یاروش اشکبار ہیں اور روتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کے بھائی اور چار سالہ بہن کو بغیر تابوتوں کے برہنہ حالت میں دفنایا گیا تھا،'' پھر میری ماں نے اولیا کو لپیٹنے کے لیے ایک اور کپڑا ڈھونڈا۔‘‘

لیوبوف یاروش کی تیسری نسل

102 سالہ یاروش کے اس وقت تین پوتے ہیں۔ تینوں رضاکارانہ طور پر یوکرین کی طرف سے فرنٹ لائن پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔  ان کی دادی  یاروش اپنی بیٹی کے ساتھ مل کر '' کیموفلاج نٹس‘‘ یا حفاظتی جال بُن رہی ہیں۔ وہ پہلے ہی یوکرینی فوج کو ایسے نو جال ُبن کر بھجواچکی ہیں۔  وہ کہتی ہیں،'' لڑکے اس (جال)کے نیچے چھپ جاتے ہیں تاکہ کوئی انہیں نہ مار سکے۔‘‘

روس اور یوکرین کی جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیار

یاروش روانہ  خبریں سنتی ہیں اور اُمید کرتی ہیں کہ فوجی زندہ گھر واپس آئیں گے۔ وہ یوکرین کی فتح دیکھنے کی خواہش اور کافی دیر تک زندہ رہنے کی اُمید رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم پہلے ہی بہت زیادہ بھوک اور سردی جھیل چُکے ہیں۔ اور ہمیں ابھی مزید تکلیفیں اٹھانا ہوں گی۔ ہم اب بھی جیت کے انتظار میں ہیں۔ میں اس فتح کو بذات خود دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘

ک م/ ش خ (اوکھینا ایرینا)

یہ مضمون بنیادی طور پر یوکرینی زبان میں لکھا گیا تھا۔