1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

دوسری عالمی جنگ کے بعد شاید یہ خطرناک ترین دہائی ہے، پوٹن

28 اکتوبر 2022

روسی صدر نے مغرب پر ایسا 'خطرناک، خونی اور گندا' کھیل کھیلنے کا الزام لگایا، جو دنیا میں افراتفری کا بیج بونے کا باعث ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کو 'شاید سب سے خطرناک' دہائی کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/4Imc4
Russland I Vladimir  Putin
تصویر: Sergei Karpukhin/AP/picture alliance

روس کے صدر ولادیمیر  پوٹن  نے 27 اکتوبر جمعرات کے روز اپنے ایک خطاب میں، یوکرین  پر روسی حملے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ چونکہ امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی اشرافیہ کے عالمی تسلط کے ناگزیر زوال کو بچانے کے لیے لڑ رہے ہیں، اس لیے ''دوسری عالمی جنگ  کے بعد دنیا کو سب سے خطرناک عشرے کا سامنا ہے۔''

پوٹن نے کیا باتیں کہیں؟

روسی صدر نے امریکہ پر یوکرین کے تنازعے کو بھڑکانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ مغرب ایسا ''خطرناک، خونی اور گندا'' جیو پولیٹیکل گیم کھیل رہا ہے، جو پوری دنیا میں افراتفری کا بیج بونے کا باعث بن رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بالآخر دنیا کے مستقبل کے بارے میں مغرب کو روس اور دیگر بڑی طاقتوں سے ہی بات کرنی پڑے گی۔ روسی صدر پوٹن  بین الاقوامی پالیسی ماہرین پر مشتمل سالانہ  'والڈائی ڈسکشن کلب' کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اب ''عالمی امور پر مغرب کے غیر منقسم تسلط کا تاریخی دور ختم ہونے والا ہے۔''

''ہم ایک ایسے تاریخی محاذ پر کھڑے ہیں، جس کے آگے شاید سب سے زیادہ خطرناک، غیر متوقع اور اس کے ساتھ ہی دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے دنیا کو سب سے اہم عشرے کا سامنا ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا کہ روس نے محاذ آرائی کے موجودہ مرحلے کے باوجود بھی مغرب کو روس کا دشمن نہیں سمجھا ہے۔ ''مغرب اور نیٹو کے سرکردہ ممالک کے لیے ماسکو کا ''ایک پیغام'' ہے: آئیے دشمن بننا چھوڑ دیں، آئیے ساتھ رہیں۔''

مذاکرات کے لیے تیار

روس نے رواں برس 24 فروری کو یوکرین میں اپنی افواج بھیجی تھی اور تب سے اس جنگ میں دسیوں ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں۔ رد عمل کے طور پر مغرب نے روس پر تاریخ کی سب سے سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

پوٹن نے کہا کہ ماسکو یوکرین میں تنازعے کے خاتمے کے لیے بات چیت کے لیے تیار ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ کییف مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

Ukraine-Krieg Armee greift Stützpunkt von Söldnergruppe Wagner an
روس نے رواں برس 24 فروری کو یوکرین میں اپنی افواج بھیجی تھی اور تب سے اس جنگ میں دسیوں ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں۔ رد عمل کے طور پر مغرب نے روس پر تاریخ کی سب سے سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیںتصویر: ukrin/dpa/picture alliance

انہوں نے کہا، ''یہ سوال ہمارے بارے میں نہیں ہے، ہم تو مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ لیکن کییف میں رہنماؤں نے روس کے ساتھ مذاکرات جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اگر واشنگٹن کییف سے متعلق اپنا موقف تبدیل کرے اور مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کا اشارہ دے، تو یہ مسئلہ حل کرنا بہت آسان ہے۔''

فریقین میں تنازعے کے پہلے ہفتوں میں تصفیے کے لیے بات چیت کی کوششیں ہوئی تھیں، تاہم اس کے بعد سے دونوں کے درمیان کوئی امن بات چیت نہیں ہوئی ہے۔ یوکرین کے صدر وولودمیر زیلنسکی نے واضح طور پر پوٹن کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار بھی کیا ہے۔

جوہری ہتھیار استعمال نہ کرنے کا عزم

روسی صدر سے جب یوکرین تنازعے میں ممکنہ جوہری ہتھیار استعمال کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ اس وقت تک موجود رہے گا جب تک جوہری ہتھیار موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ماسکو کا یوکرین میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ''ہم اس کی کوئی ضرورت نہیں دیکھتے۔ اس کا کوئی سیاسی یا عسکری فائدہ بھی نہیں ہے۔''

امریکہ کا رد عمل

ادھر امریکہ نے روسی صدر کے بیان پر کوئی خاص رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ پوٹن کے یہ ریمارکس کوئی نئی بات نہیں ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوکرین سمیت ان کے دیگر اسٹریٹیجک اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

تاہم امریکی صدر جو بائیڈن نے نیوز نیشن کو انٹرویو دیتے ہوئے روسی صدر پوٹن کی اس بات پر شکوک کا اظہار کیا کہ ان کا یوکرین میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا، ''اگر ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے تو وہ اس پر بات کیوں کرتے ہیں؟ وہ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی صلاحیت کے بارے میں کیوں بات کر رہے ہیں؟ اس بارے میں ان کا طرز عمل بہت خطرناک رہا ہے۔''

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)

پوٹن کی جنگ کے خلاف روسی شہریوں کی مزاحمت