دوشنبہ: افغانستان سے متعلق پانچویں علاقائی کانفرنس
26 مارچ 2012اس دو روزہ کانفرنس میں افغانستان، پاکستان، ایران اور تاجکستان کے صدور اور 40 ملکوں کے وزرائے خارجہ کے علاوہ 33 بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندے بھی شریک ہیں۔
آج کانفرنس کے پہلے روز ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے اپنے خطاب میں امریکا پر کڑی تنقید کی اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کے فوری انخلاء پر زور دیا۔ انہوں نے کہا: ’’نیٹو اور افغانستان کو اپنی پالیسی تبدیل کر لینی چاہیے کیونکہ اب وہ زمانے گئے، جب وہ دیگر ملکوں پر اپنے احکامات چلایا کرتے تھے۔ دیگر ملکوں کو ڈرانے دھمکانے اور انہیں نو آبادی بنانے کی بجائے ان کا احترام کرنا کہیں زیادہ بہتر ہے۔ استعماریت کا دور لد چکا ہے۔‘‘
ایرانی صدر نے امریکا پر الزام لگایا کہ افغانستان میں امریکی فورسز کی موجودگی کا مقصد دفاعی نقطہ نظر سے اہم اس پورے خطے کا گھیراؤ کرنا ہے۔
امریکا کے نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا رابرٹ بلِیک کی زیر قیادت امریکی وفد نے صدر احمدی نژاد کی تقریر کا بائیکاٹ کیا۔
کل اتوار کو دوشنبہ میں ہونے والے چہار فریقی اجلاس میں تاجکستان، افغانستان، ایران اور پاکستان کے صدور نے چاروں ملکوں کے درمیان افغانستان کی معیشت کی تعمیر نو اور ٹرانسپورٹ و راہداری کے امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
ایرانی صدر نے افغان صدر حامد کرزئی اور اپنے تاجک ہم منصب امام علی رحمان کے ساتھ ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے، جس کے تحت تینوں ملکوں سے گزرنے والی ایک ریلوے لائن تعمیر کی جائے گی۔ اس کا ایک مقصد ایران کی تیل کی مصنوعات اور قدرتی گیس کی سپلائی میں اضافہ کرنا ہے۔
افغانستان کے بارے میں یہ کانفرنس ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب نیٹو کے بگرام فوجی اڈے پر قرآن سوزی کے واقعے اور طالبان کی جنم بھومی قندھار میں ایک امریکی فوجی کے ہاتھوں سولہ افغان شہریوں کے قتل کے بعد واشنگٹن اور کابل کے درمیان کشیدگی میں انتہائی اضافہ ہو چکا ہے۔
بین الاقوامی فورسز ملک میں سلامتی کی ذمہ داریاں افغان فوج کے سپرد کر کے 2014 ء کے اختتام تک اس جنگ زدہ ملک سے انخلاء کا ارادہ رکھتی ہیں۔ تاہم ملک میں سکیورٹی کی حالت بدستور تشویش ناک ہے۔ آج پیر کو صوبہ ہلمند کے صدر مقام لشکر گاہ میں افغان فوج کی وردی میں ملبوس ایک حملہ آور نے فائرنگ کر کے نیٹو کے دو فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔ رواں سال اب تک افغان فوجیوں کے ہاتھوں نیٹو کے گیارہ فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی