'افغان میسی‘ پاکستان میں بھی محفوظ نہیں
3 مئی 2016چند ماہ قبل انٹرنیٹ پر ایک تصویر اس قدر مشہور ہوئی کہ راتوں رات پوری دنیا میں اس کی دھوم مچ گئی۔ تصویر میں مرتضیٰ احمدی نامی افغان بچہ ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے شہرہ آفاق فٹ بالر لیونیل میسی کی قمیص پہنے فٹ بال کھیلتا دکھائی دے رہا ہے۔ تاہم خاص بات یہ ہے کہ یہ قمیص اس کے بڑے بھائی نے پلاسٹک کی تیھلی سے بنائی تھی۔ احمدی کا خاندان اتنا غریب ہے کہ وہ میسی کے ایک بہت ہی بڑے پرستار کے لیے فٹ بالر کی جرسی خرید نہیں سکتا۔ لیکن احمدی کی میسی سے محبت اتنی زیادہ ہے کہ بھائی نے پلاسٹک کی تھیلی سے اس کا ارمان پورا کیا۔
اس تصویر کے انٹرنیٹ پر مشہور ہونے کے بعد احمدی کو ’لِٹل میسی‘ اور ’افغان میسی‘ کے خطابات ملنے لگے۔ دنیا بھر کا میڈیا اس سے اور اس کے خاندان سے انٹرویو کرنے پہنچ گیا۔ یہاں تک کہ میسی کی ٹیم نے بھی اس بات کا نوٹس لیا۔ میسی نے ارجنٹائن کی ٹیم کے لیے اپنی جرسی پر دست خط کر کے احمدی کو افغانستان بھیجے، جس پر احمدی کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ بارسلونا کلب، جس کے لیے میسی کھیلتے ہیں، احمدی کی ملاقات مشہور فٹ بالر سے کروانے کا انتظام بھی کر رہی ہے۔
تاہم شہرت کے ساتھ احمدی کے لیے خطرات میں بھی اضافہ ہو گیا۔ اس کے والد کے مطابق انہیں فون پر دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں، جس کے بعد انہوں نے سب بیچ باچ کر پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ پہلے وہ اسلام آباد منتقل ہوئے، تاہم دارالحکومت کی مہنگائی برداشت نہ کرنے کے سبب وہ کوئٹہ چلے گئے۔
تاہم والد محمد عارف احمدی نے منگل کے روز فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’افغان میسی‘ پاکستان میں بھی محفوظ نہیں ہے، اور انہوں نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین، یو این ایچ سی آر، سے درخواست کی ہے کہ احمدی کو کسی محفوظ ملک منتقل کیا جائے۔
وہ کہتے ہیں، ’’ہمارے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہم تحفظ کا احساس چاہتے ہیں۔‘‘
یو این ایچ سی آر نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ احمدی کے خاندان نے ان سے مدد کی درخواست کی ہے۔ ادارہ اس درخواست کے حوالے سے اپنے طور پر تحقیقات کر رہا ہے۔
احمدی اور اس کے اہل خانہ کی خواہش ہے کہ انہیں اسپین کے شہر بارسلونا منتقل کر دیا جائے، تاکہ احمدی کا میسی سے ملنے کا خواب بھی پورا ہو سکے اور وہ فٹ بال بھی سیکھ سکے۔ ’افغان میسی‘ لیونیل میسی بن سکے۔