1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

 ’یہ مودی کا بھارت نہیں، یہ نیا پاکستان ہے‘

25 مارچ 2019

پاکستان کے وزیر برائے اطلاعات فواد چوہدری اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے درمیان اتوار کو ٹوئٹر پر پاکستان کی دو ہندو لڑکیوں کو مبینہ طور پر جبراً مسلمان کیے جانے کے معاملے پر بحث چھڑ گئی۔

https://p.dw.com/p/3FbSM
Pakistan Karatschi Holi-Festival
تصویر: DW/Raffat Saeed

پاکستانی صوبے سندھ میں مبینہ طور پر دو لڑکیوں کو اغوا کرنے کے بعد جبری طور پر انہیں مسلمان کر دیا گیا ہے۔ اس معاملے پر بھارتی وزیر خارجہ نے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمیشنر سے کہا ہے کہ وہ گھوٹکی کی ان نوجوان لڑکیوں کے مبینہ اغوا ور پھر انہیں جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے پر مجبور  کیے جانے کے  واقع کی تحقیقیات کریں۔ سشما سوراج کی ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنی ٹویٹ میں لکھا،’’ یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے۔ اور یہ مودی کا بھارت نہیں ہے جہاں اقلیتوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہو۔ یہ عمران خان کا نیا پاکستان ہے جہاں جھنڈے کا سفید رنگ  ہماری اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے جو ہمیں باقیوں کی طرح عزیز ہیں۔‘‘

فواد چوہدری کی ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ نے کہا،’’ میں نے تو صرف بھارتی ہائی کمیشنر سے اس معاملے پر رپورٹ طلب کی ہے۔ یہ آپ کو بے چین کرنے کے لیے کافی تھا۔ یہ آپ کے ضمیر کی خلش ظاہر کرتی ہے۔‘‘

بات یہاں ختم نہیں ہوئی، بھارتی وزیر خارجہ کا جواب دیتے ہوئے  فواد چوہدری نے اپنی ٹویٹ میں لکھا،’’ میں خوش ہوں کہ بھارتی انتظامیہ میں کچھ لوگوں کو اقلیتوں کے حقوق کی پرواہ  ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ کا ضمیر آپ کو اپنے ملک میں اقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر مجبور کرے گا۔ گجرات اور جموں آپ کے ضمیر پر بھاری  بوجھ کا سبب بنتے ہوں گے۔‘‘

چودہ اور سولہ سالہ دو ہندو لڑکیوں کے والد اور بھائی نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ ان کی لڑکیوں کو اغوا کیا گیا اور پھر انہیں جبری طور پر مسلمان کر دیا گیا ہے اور ان کی شادی مسلمان مردوں سے کر دی گئی۔  تاہم سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت زیادہ شیئر کی جا رہی ہے جس میں یہ لڑکیاں کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔ تاہم سندھ کے قانون کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی کی شادی کرنا جرم ہے لہذا کچھ سماجی کارکنان اس حوالے سے بھی آواز اٹھا رہے ہیں کہ ان بچیوں کی شادی کرانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔

ب ج/ ک م