1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یہ رویہ تو اور زیادہ اہانت آمیز ہے‘ : بھارتی سپریم کورٹ

جاوید اختر، نئی دہلی
25 اگست 2020

انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور معروف وکیل پرشانت بھوشن نے توہین عدالت کے معاملے پر معافی مانگنے سے انکارکردیا جس پر بھارتی سپریم کورٹ نے کہا کہ ’یہ رویہ تو پہلے سے زیادہ اہانت آمیز ہے۔‘

https://p.dw.com/p/3hTDM
Indien Recht auf Privatsphäre- Anwalt Prashant Bhushan vor Oberstem Gerichtshof in New Delhi
پرشانت بھوشنتصویر: Reuters/A. Abidi

بھارتی سپریم کورٹ نے تاہم توہین عدالت کے لیے پرشانت بھوشن کے خلاف آج کوئی سزا سنانے کے بجائے معاملے کی سماعت 10 ستمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ اور پرشانت بھوشن کے درمیان اس جنگ پر دنیا بھر میں قانون اور عدلیہ سے وابستہ افراد اور اداروں کی نگاہیں لگی ہوئی تھیں کہ جسٹس ارون مشرا کی قیادت والی تین رکنی بنچ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس  اے  بوبڈے اور سپریم کورٹ کے خلاف مبینہ اہانت آمیز ٹوئٹس پر   پرشانت بھوشن کو کیا سزا سناتی ہے۔ لیکن جسٹس مشرا نے کہا کہ وہ ریٹائر ہونے والے ہیں،اس لیے انہوں نے اس معاملے کو چیف جسٹس کے پاس بھیج دیا ہے۔ اب اگلی سماعت کرنے والی مناسب بنچ یہ طے کرے گی کہ اس معاملے کو بڑی بنچ کے پاس بھیجا جاسکتا ہے یا نہیں۔

 سپریم کورٹ نے سزا سنانے سے قبل کہا تھا کہ اگر پرشانت بھوشن عدالت سے غیرمشرو ط معافی مانگ لیتے ہیں تو ان کے خلاف معاملے کو ختم کرنے پر غور کیا جاسکتا ہے۔  دوسری طرف حکومت کے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے بھی عدالت سے درخواست کی تھی کہ پرشانت بھوشن کو تنبیہ کرکے معافی دے دی جائے۔

 پرشانت بھوشن نے تاہم ایک حلف نامہ دائر کرکے معافی مانگنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے حلف نامے میں کہا”اپنے خیالات ظاہر کرنے پر شرط یا بغیر شرط کے معافی مانگنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ دکھاوے کی معافی مانگنا میرے ضمیر کی اور اس ادارے کی توہین کے مترادف ہوگا۔"

Indien Neu Delhi Ranjan Gogoi S.A. Bobde
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی(دائیں) اور موجودہ چیف جسٹس بوبڈے۔ سبکدوشی کے فوراََ بعد راجیہ سبھا کی رکنیت قبول کرنے پر جسٹس گوگوئی کی کافی نکتہ چینی ہوئی تھی۔تصویر: IANS

جب اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ وہ پرشانت بھوشن کے اس جواب کا خیال نہ کرے تو جسٹس مشرا کا کہنا تھا”ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ ہر کوئی ہماری نکتہ چینی کرے گا کہ ہم نے اس جواب پر غور نہیں کیا جو پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ اہانت آمیز ہے۔ اگر ہم اس پر غور نہیں کرتے ہیں تو ہم پر یہ الزام عائد ہوگا کہ ہم نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا۔"

جسٹس مشرا کا مزید کہنا تھا کہ ” پرشانت بھوشن یہ نہیں تسلیم کررہے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ غلط تھا۔ انہوں نے کوئی معذرت نہیں پیش کی... لوگ غلطی کرتے ہیں، بعض اوقات خوش گمانی میں بھی غلطیاں ہوجاتی ہیں لیکن وہ تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے کوئی غلطی کی ہی نہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ کیا کیا جاناچاہیے جو یہ سوچتے ہیں کہ ان سے کوئی غلطی ہوئی ہی نہیں۔"

خیال رہے کہ پرشانت بھوشن نے دو متنازعہ ٹوئٹس کی تھیں۔ ایک ٹوئٹ میں انہوں نے'بھارتی جمہوریت کی تباہی‘ کے لیے سپریم کورٹ کے چار سابق چیف جسٹسز کو مورد الزام ٹھہرایا تھا جبکہ دوسری ٹوئٹ میں موجودہ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے پر نکتہ چینی کی تھی۔

پہلی ٹوئٹ میں پرشانت بھوشن نے لکھا تھا”مستقبل میں مورخین جب اس بات کا جائزہ لیں گے کہ گزشتہ چھ برسوں کے دوران باضابطہ ایمرجنسی کے نفاذ کے بغیر ہی بھارتی جمہوریت کو کس طرح تباہ کیا گیا تو وہ اس تباہی کے لیے سپریم کورٹ کے کردار اور بالخصوص سپریم کورٹ کے چار سابق چیف جسٹسزکی خاص طورپر نشاندہی کریں گے۔"

Indien  Supreme Court in New Delhi Oberster Gerichtshof
ماہرین قانون کا خیال ہے کہ بھارتی عدالتیں پہلے جس فعال انداز سے قانون کی حکمرانی کے لیے کام کرتی تھیں اب وہ بات نہیں رہی-تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri

پرشانت بھوشن نے دوسری ٹوئٹ میں لکھا تھا”بھارتی چیف جسٹس نے کورونا وبا کے دور میں ہیلمٹ اور ماسک کے بغیر موٹر سائیکل کی سواری کی جب کہ عدالت کو لاک ڈاون میں رکھ کر لوگوں کے انصاف جیسے حق سے محروم رکھا۔"  دراصل چیف جسٹس بوبڈے کی ایک تصویر وائرل ہوگئی تھی جس میں وہ مہنگی ترین بائیک پر ہیلمٹ اور ماسک کے بغیر بیٹھے ہوئے تھے۔

ماہرین قانون کا خیال ہے کہ بھارتی عدالتیں پہلے جس فعال انداز سے انسانی حقوق کی پاسبانی یا قانون کی حکمرانی کے لیے کام کرتی تھیں اب وہ بات نہیں رہی اور اب ججوں کے رویوں سے لگتا ہے کہ وہ دباؤ کا شکار ہیں۔

سپریم کورٹ کے سرکردہ وکیل سنجے ہیگڑے نے اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''میں کئی برس پہلے ہی یہ بات لکھ چکا ہوں، کہ جس دن ملک میں اکثریت والی حکومت آجائے گی تو عدالتیں بھی اسی کی تقلید کریں گی اور ان کے موافق ہوجائیں گی۔ تو جیسے جیسے اکثریت بڑھتی گئی ماحول بھی اکثریت کی طرف بدلتا گیا اور آج عدالتیں اسی کی عکاس ہیں۔

’مودی کی حکومت ملک کو ایک ہندو ریاست بنانے کی کوشش میں‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں